سٹاک ایکسچینج میں ’تاریخی اضافہ‘ مستقل ہے یا عارضی؟

’پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔‘

ایک سٹاک بروکر چار اپریل 2022 کو کراچی میں ٹریڈنگ سیشن کے دوران (رضوان تبسم / اے ایف پی)

عمر صفدر نے جون 2017 میں سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری شروع کی تھی، پچھلے پانچ سال سے وہ نقصان میں ہیں۔

آج جب مارکیٹ بہتر ہو رہی ہے تو ان کے شیئرز کی اصل قیمت ابھی بھی نہیں مل رہی۔ انھوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بڑے دعووں کو سچ مان کر سرمایہ کاری کی تھی لیکن حکومت بدلنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ اعدادوشمار وقتی طور پر بہتر کیے گئے تھے۔

آج جب انھوں نے خبر پڑھی کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کا بینچ مارک کے ایس ای 100-انڈیکس چھ سال بعد 49 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کرگیا ہے تو وہ سوچنے لگے کہ حکومت اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ سٹاک ایسچیبج میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے۔

انھیں پتہ چلا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’معاہدے تو پہلے بھی ہوئے ہیں تب یہ اضافہ کیوں نہیں دیکھا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت جان بوجھ کر سٹاک مارکیٹ کو اٹھا رہی ہے تا کہ جاتے جاتے وہ یہ نعرہ لگا کر جائیں کہ ہمارے دور میں ملک ترقی کر رہا تھا جس کا ثبوت سٹاک ایکسچینج ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آخری بار یہ سطح چھ برس قبل نو جون 2017 کو دیکھی گئی تھی۔ اس کے بعد اکتوبر 2017 میں اسحاق ڈار صاحب ملک چھوڑ کر لندن روانہ ہو گئے تھے۔ آج بھی ڈار صاحب بار بار یہی ذکر کرتے ہیں کہ جب میں وزرات خزانہ چھوڑ کر گیا تھا تو سٹاک ایکسچینج بہترین پرفارم کر رہی تھی۔‘

وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک دو دن میں جو بھی قیمت مل رہی ہے اس پر شیئرز بیچ کر جان چھڑائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نگران حکومت میں یہ قیمت بھی نہ ملے۔

سابق حکومتی ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دنیا میں عوام کی بڑی تعداد سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی آبادی تقریبا 23 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

’اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 33 خاندان ایسے ہیں جو سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33 خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عوام کو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سٹاک مارکیٹ میں مندی اور بہتری کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ کمپنیوں کی کارکردگی، بروکرز کی نیت اور افواہیں۔ اس وقت ان تینوں پہلوؤں میں بہتری نظر آرہی ہے۔ جب تک پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں آ رہی تھیں تو کمپنیوں کے شیئرز کی ڈیفالٹ پرائسنگ ہو رہی تھی۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اب ڈیفالٹ پرائسنگ نہیں ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ ‘

’2017 میں کیپٹلائزیشن تقریباً ایک ارب کی تھی جو کہ اب تقریبا 20 ارب کی ہے۔ اس حساب سے شیئرز کی قیمت بہتر ہونی چاہیے لیکن روپے کی قدر گرنے سے بھی مطلوبہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حالات میں شیئرز کی قیمت بڑھنا نارمل ہے۔ لیکن مستقبل میں کیا ہو گا اس بارے مکمل یقین سے کوئی دعوی کرنا ممکن نہیں ہے۔ عمومی طور پر نگران سیٹ اپ میں معاشی استحکام برقرار نہیں رہتا۔‘

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ سنی کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کے بعد فارن انویسٹرز کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں فارن انویسٹرز نے تقریبا 22 ملین ڈالرز کے شیئرز خریدے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ خریداری بینکنگ سیکٹر میں ہوئی ہے۔

’مارکیٹ میں بہتری کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے۔ حکومت وقت پر جا رہی ہے یہ ایک مثبت اشاریہ ہے۔ اگر الیکشنز تین ماہ میں ہوجاتے ہیں تو مارکیٹ میں بہتری برقرار رہے گی لیکن اگر الیکشنز اگلے سال میں ہوتے ہیں تو سٹاک مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرمارکیٹ سکیوریٹیز لمیٹڈ کے ہیڈ آف ایکویٹی رضا جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چین، سعودی عرب، یو اے ای، قطر ، امریکہ اور آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کی علاوہ کمپنیوں نے شیئر ہولڈرز کو اچھے منافع دیے ہیں۔ جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ بہتر ہوئی ہے۔

’مارکیٹ مصنوعی طریقے سے بہتر نہیں کی جا رہی۔ بلکہ ابھی بھی انڈرویلیو ہے۔ نگران حکومت کو اوور کانفیڈنس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر نگران حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر من وعن عمل کرتی ہے تو مارکیٹ بہتر ہو گی، مزید معاشی استحکام آ سکتا ہے اور مہنگائی میں کمی آ سکتی ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب کے مطابق ’آئی ایم اایف پروگرام کے بعد سٹاک مارکیٹ کا بہتر ہونا فطری تھا۔ لیکن مارکیٹ اس قدر اوپر آئے گی اس کی توقع نہیں تھی۔ میرے مطابق یہ اضافہ مصنوعی ہے۔ جس تیزی سے مارکیٹ اوپر گئی ہے اس سے زیادہ تیزی سے نیچے گر سکتی ہے۔

’گلف ممالک کی طرف سے آئل اینڈ گیس میں سرمایہ کاری اور نجکاری کی خبریں چلا کر مارکیٹ اٹھائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ ماضی میں بھی دس ارب ڈالرز سے گوادر میں آئل ریفانری لگانے کے وعدے ہوئے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

عوام کو سوچ سمجھ کر سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ بروکرز حضرات پہلے مارکیٹ بڑھاتے ہیں،  پھر اپنا سستا مال مہنگا بیچ کر نکل جاتے ہیں اور عام سرمایہ کار نقصان اٹھاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل بروکرز حضرات نیا چورن بیچ رہے ہیں کہ پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز انڈر ویلیو ہیں اور یہ مستقبل میں بڑھ جائیں گے۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل پاکستانی کمپنیوں کے شیئرز اوور ویلیو ہیں۔ اگر یہ انڈر ویلیو ہیں تو کمپنی خود اپنے سارے شیئرز خریدے اور اس کو اصل ویلیو پر لا کر دوبارہ بیج دے۔

’فی الحال مارکیٹ بنائی جا رہی ہے اور کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ یہ بلکل ایسا ہی ہے، جیسا اسحاق ڈار صاحب کے مطابق ڈالر 244 کا ہے لیکن اس ریٹ پر حکومت بھی لینے اور دینے کو تیار نہیں ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت