وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ہفتے کو بیان دیا ہے کہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔
انہوں نے آج جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہونے میں چار مہینے لگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت عام انتخابات شائع کی گئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد وہی رہے گی، جو آئین پاکستان کے مطابق درج ہے۔
انہوں نے کہا: ’نشستوں کی تعداد وہی رہے گی، ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا۔‘
انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اسمبلی آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل تحلیل کی جائے گی تو اس حساب سے آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں بنتے ہیں۔ تاہم مردم شماری سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دو سے اڑھائی ماہ مزید درکار ہوں گے۔
یاد رہے قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست کی رات کو ختم ہو رہی ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے نو اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط کے مطابق اگر وقت سے پہلے قومی اسمبلی تحلیل کی جاتی ہے تو انتخابات 90 روز میں کروانے ہوں گے۔
وزیر قانون نے کہا آئینی بحرانی کیفیت تھی جسے اب دور کر لیا گیا ہے، اب یہ الیکشن کمیشن پر ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کا عمل کتنی جلدی کرتا ہے۔
نگران حکومت سے متعلق سوال پر وزیر قانون نے کہا الیکشن میں التوا ہو تو نگران حکومت کو آئینی کور کی ضرورت نہیں ہوتی، جب تک الیکشن نہیں ہوتے، نگران حکومت رہتی ہے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کروانی ہوں گی اور ملک میں حلقہ بندیوں کے لیے وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’حلقہ بندیوں کے لیے کم سے کم کمیشن کو چار ماہ درکار ہوں گے۔‘
آج وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدرات مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے 50ویں اجلاس میں ساتویں مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے مردم شماری کے نتائج سے مکمل اتفاق کیا۔
اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ڈاکٹر خالد مگسی، ایم کیو ایم کے سید امین الحق، جمیعت علمائے اسلام کے مولانا اسد محمود اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ نے بھی سی سی آئی کے دیگر ارکان کے علاوہ خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی
بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کو بہترین طور سے قرار دیتے ہوئے خوش آئند کہا، نیز یہ کہ صوبائی حکومتوں اور پاکستان ادارہ شماریات نے اس قومی فریضے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سی سی آئی وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک اہم آئینی ادارہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کو وزارتِ منصوبہ بندی اور پاکستان ادارہ شماریات کے حکام نے مردم شماری کے نتائج پر تفصیلی بریفنگ دی، جس کے مطابق ساتویں مردم شماری کے مطابق پاکستان کی موجودہ مجموعی آبادی 241.49 ملین ہے اور ملکی آبادی کی سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد رہی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ بلوچستان کی آبادی کی شرح نمو باقی صوبوں سے زیادہ یعنی 3.2 فیصد رہی۔
اجلاس کو بتایا گیا 2023 میں مجموعی طور پر پاکستان کی آبادی 241.49 ملین نفوس ریکارڈ کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح خیبر پختونخوا کی آبادی40.85 ملین، پنجاب کی آبادی 127.68 ملین، سندھ کی آبادی 55.69 ملین، بلوچستان کی آبادی 14.89 ملین اور اسلام آباد کی آبادی 2.36 ملین ریکارڈ کی گئی۔
اس لحاظ سے پاکستان کی آبادی میں اضافے کی موجودہ سالانہ شرح نمو 2.55 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 2.38 فیصد، پنجاب2.53 فیصد، سندھ2.57 فیصد اور بلوچستان 3.20 فیصد رہی۔
بیان کے مطابق گذشتہ چھ سال میں آبادی میں 3.5 کروڑ کا اضافہ ہوا جو باعث فکر ہے۔
وزیر اعظم نے اجلاس میں کہا کہ پاکستان کی آبادی کے اضافے کا تناسب پاکستان کی معاشی ترقی سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافہ متعدد قسم کی مشکلات پیدا کرتا ہے جو آئندہ منتخب شدہ حکومت اور مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں نہ صرف آبادی میں اضافے کو روکنا ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھا کر ان چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے محدود وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔
’اگر آبادی کی شرح نمو موجودہ رفتار سے جاری رہی تو ہماری تمام تر کاوشوں کے باجود پاکستان میں غربت اوربیروزگاری میں اضافہ ہوگا لہٰذا اپنے محفوظ مستقبل کے لیے ہمیں آبادی میں اضافے پر قابو پانے اور موجودہ آبادی کی ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔‘