اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جج فرخ فرید نے وکیل استغاثہ سے کہا کہ ’سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے، شواہد ایمان داری سے جمع کریں، پریشر نہ لیں، تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔‘
وکیل صفائی نے کہا کہ ’سومیہ عاصم تمام ثبوت پولیس کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ سات جولائی کو مالی نے دیکھا کہ بچی باغیچے میں مٹی کھا رہی تھی اور اسی وجہ سے الرجی ہوئی۔ مٹی کھانے کی عادت سے بچی کو الرجی ہوئی جس کی دوا بھی لے کر دی۔‘
’فارمیسی کی سلپ بھی موجود ہے جہاں سے جِلد کی الرجی کی دوا لے کر دی گئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دو گھنٹے بچی بس سٹاپ پر صحیح سلامت بیٹھی نظر آرہی ہے۔ بچی ماں کے ساتھ بھی بس سٹاپ پر بیٹھی ہے اور صحیح سلامت نظر آرہی۔ الزام ہے کہ سول جج کے گھر گئے تو بچی زخمی تھی اور رو رہی تھی۔‘
ملزمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’کیس کے ملتوی ہونے سے ہمارے گواہان پر بھی اثرانداز ہونے کا خطرہ ہے۔‘
وکیل صفائی نے کہا کہ ’الزام لگایا گیا کہ بچی کا سر زخمی تھا اور کیڑے پڑے ہوئے تھے۔ سرگودھا تک بچی بالکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی۔‘
’تین بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت کیسے اچانک پڑ گئی؟ اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے۔‘
وکیل صفائی نے عدالت میں اپنے دلائل میں مزید کہا کہ قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، لیکن ’اس کیس میں حقائق مسخ کیے گئے، تاخیری حربے استعمال کر کے بیان کو تاخیر سے ریکارڈ کروایا گیا۔‘
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ کیا موبائل فون کی سی ڈی آر لی گئی ہے؟ جس پر وکیل صفائی نے جواب دیا کہ ’نہیں کال ریکارڈ ڈیٹا کیوں لیں گے، تفتیشی افسر کو بتایا گیا کہ بچی کو صحیح سلامت بس میں بٹھا دیا گیا ہے۔ مقدمے میں صحیح سلامت بچی کو بس اڈے پہنچنے کا ذکر نہیں۔ تفتیشی افسر کڑی سے کڑی نہیں ملا پا رہا ہے، کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔‘
پراسیکوٹر وقاص حرال نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک نہیں، بچی کو متعدد انجریاں ہیں، پسلیوں تک پر انجری ہے، ڈاکٹر نے تو معائنہ کرکے بتانا ہے کہ انجریاں کتنی ہوئی ہیں۔‘
یہ سن کر بچی رضوانہ کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں۔
پراسیکوٹر وقاص حرال نے مزید کہا کہ ’وکیل صفائی طبی رپورٹ مانگ رہے ہیں، سب کچھ ریکارڈ پر دستیاب ہے۔ گواہان، طبی رپورٹ، شواہد سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔‘
’اگر بلیک میلنگ ہوتی رہی تو سومیہ عاصم نے پولیس کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کیا سومیہ عاصم نے کہیں پولیس کو کال کرکے کہا کہ بچی کے والدین بلیک میل کر رہے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’انجریوں کو ثابت کرنے کے لیے تشدد کرنے والے آلے کی ضرورت ہے۔ آلہ ضروری ہے تاکہ ثابت ہو سکے کہ واقعی بچی پر تشدد ہوتا رہا۔‘
دلائل کے بعد پراسیکوٹر وقاص حرال نے ملزمہ سومیہ عاصم کی گرفتاری کی استدعا کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے جب سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کی اور گرفتاری کا حکم دیا تو ملزمہ سومیہ کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دینی ہے، تب تک کے لیے آپ کی عدالت میں درخواست دینا چاہتے ہیں۔‘
جس پر جج نے کہا کہ ’عدالت اس وقت کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے سکتی۔‘
جج فرخ فرید نے بار بار ملزمہ سومیہ عاصم کو کمرہ عدالت چھوڑنے کی ہدایت کی لیکن گرفتاری کا سن کا سومیہ عاصم آبدیدہ ہو گئیں اور سماعت ختم ہونے کے بعد کچھ دیر کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ اس دوران اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر موجود تھی۔
ڈی آئی جی شہزادہ بخاری نے پولیس اہلکاروں کو ملزمہ کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ کمرہ عدالت سے باہر آنے پر پولیس نے سومیہ عاصم کو گرفتار کیا اور گاڑی میں لے کر روانہ ہو گئی۔
گذشتہ ماہ اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا۔
سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ملازمہ بچی رضوانہ کو 24 جولائی کو تشویشناک حالت میں لاہور کے جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ جسے اسلام آباد کے ایک سول جج کی اہلیہ نے سونے کے زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506 (مجرمانہ ارادہ) اور دفعہ 342 (حبس بے جا میں رکھنا) شامل کی گئی تھیں۔ بعد ازاں مقدمے میں نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ کا اضافہ کیا گیا تھا۔
پولیس افسران نے تصدیق کی تھی کہ ایف آئی آر میں دفعہ 328-اے (بچوں پر ظلم) کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
یکم اگست کو ملزمہ سومیہ عاصم کو عبوری ضمانت دی گئی تھی جو پیر سات اگست کو خارج کر دی گئی ہے جبکہ بچی کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا ہے۔