کابل کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ ہزارہ برادری کی شادی کی تقریب کے دوران ہونے والے زوردار دھماکے کے نتیجے میں پَل بھر میں 80 سے زائد شیعہ ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
شادی ہال میں ہر طرف جسمانی اعضا بکھر گئے۔ اٹھانے والوں کو یہ ادراک کرنا مشکل ہو گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں سر کس کا، ہاتھ کس کا اور دھڑ کس کا ہے؟ سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھ کر بخدا سر شرم سے جھک گیا۔ بےشک اقبال نے ایسے مسلمانوں ہی کے بارے میں توکہا تھا:
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود
کیا اسرائیل کی 72 سالہ تاریخ میں کسی نے سنا ہے وہاں کسی یہودی نے اپنے ہم مذہب افراد کواس طرح نشانہ بنایا ہو؟ کیا کوئی یہ گواہی دے سکتا ہے کہ اس دور میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ اس طرح بھیانک کھیل کھیلا ہو؟ ان تمام سوالات کے جوابات مجھے نفی میں مل رہے ہیں۔
بہت کم اور شاذ ایسے عیسائی، یہودی اور ہندو ہوں گے جو اس نوعیت کے ظلم کا سوچ کر اس کو عملی جامہ پہنائیں۔ نیوزی لینڈ میں چند ماہ پہلے دہشت گردی کا ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ اس ملک کے طول وعرض میں اس پر ندامت اور شرمندگی محسوس کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن میں بھی اتنی غیرت تھی کہ ہفتوں تک وہ مسلمان برادری کے ساتھ کھڑی رہ کر یکجہتی اور ماتم کا اظہار کرتی رہیں۔
دوسری طرف ہمارے نام نہاد غازیوں کی داستانیں ہیں جو روز اپنوں کو کاٹ کاٹ کر تھکنے کا نام نہیں لیتے۔ ان لوگوں کی دانست میں وہ افغانستان ابھی تک مسلمان نہیں ہوا جس کی پوری تاریخ اسلام اور اسلامی اقدار پر کھڑی ہے۔ جہاں کے اولیا پورے برصغیر میں پھیل کر لوگوں کو الہیات اور آسمانوں سے جوڑتے رہے، جس کے بارے میں اقبال گواہی دے چکے کہ مذہب افغانوں کی گھٹی میں پڑا ہے۔
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
کابل میں ظلم کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ وہاں پر روز ایسی قیامتوں بپا ہوتی ہیں۔ حالیہ دھماکے میں بھی 80 سے زیادہ افراد کی زندگی کے چراغ گل کر دیے گئے۔ درجنوں گھر اجڑ گئے، بےشمار بچے یتیم اور خواتیں بیوہ ہوگئیں۔ دلہن کے والد بتا رہے تھے کہ دھماکے میں ان کے خاندان کے 14 افراد چل بسے۔
ماضی کی طرح اب کی بار بھی اس تاریخی ظلم پر ہمارا ردعمل اور مذمت محض لفاظی اور نہ ہونے کے برابر تھی۔ کیا یہاں روز مہنگائی، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجاً سڑکیں بلاک کر دینے والی مذہبی جماعتوں کی قیادت نے اس ظلم کے خلاف بھی چند افراد کی ریلی نکالی؟ جواب نفی میں ہے۔
کیا کسی مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، علامہ خادم حسین رضوی اور حامد حقانی نے اس مرتبہ یہ سوچنا کہ اس خطے میں اسلام کے مقدس نام پر یہ کیا خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ کیا یہ لوگ اتنے بےحس ہو چکے ہیں کہ فساد پھیلانے والوں کے مفسد نظریات کو باطل قرار دے کر ان سے خود بھی اور دوسروں کو بھی لاتعلق رکھیں؟
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناسور کو وقتی طور پر فوجی کارروائیوں اور ریاستی اداروں کی عملیات کے نتیجے میں شکست دی جاسکتی ہے لیکن اس کا قلع قمع کرنے کا حل قطعاً یہ نہیں۔
نظریاتی اور فکری طور پر جب تک اس خونخوار طبقے کو قائل نہ کیا جاسکے تب تک یہ جنازے اٹھتے رہیں گے۔ میرا یقین ہے کہ نظریاتی محاذ پر ہمارے علما کرام ہی یہ فریضہ بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہمارے علما کو پہلے ایک پیچ پر آنا ہوگا۔ ایک حتمی اور جاندار بیانیہ تشکیل دینا ہوگا یوں اس ناسور کے خلاف انہیں اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کیا 40 سال سے اپنے لہو میں تڑپتے افغانوں نے ہم اور ہمارے علما کو سوچنے پر مجبور کیا ہے؟ کیا اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہمارے پاس چلو بھر پانی بھی نہیں؟