17 سالہ ہدیس لیسانی دلیجام ہائی سکول کی طالب علم ہیں لیکن ان کی زندگی گُھٹن زدہ ہو گئی تھی۔
ایک بار گلی کے نُکڑ پر ایک شخص نے ان کے مغربی لباس اور میک اپ کی وجہ سے ان کی سرزنش کی اور پھر ایک درمیانی عمر کی خاتون نے نوجوان لڑکے سے بات کرنے پر ان کی لعنت ملامت کی۔
ہدیس نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’اُس خاتون نے اِس بارے میں اتنی خوفناک باتیں کیں کہ میں وہ یہاں بیان ہی نہیں کر سکتی۔‘
اس کرب سے نجات کے لیے ہدیس نے ایک غیرمعمولی جگہ کا انتخاب کیا اور وہ تھی کابل کا ایک کافی شاپ۔
’یہ ہی ایک واحد جگہ ہے جہاں میں پُرسکون اور آرام دہ محسوس کر سکتی ہوں، چاہے یہ کچھ گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔‘
وہ کافی شاپ میں ننگے سر دو نوجوان لڑکوں سے گپ شپ میں مشغول تھیں۔
جنگ زدہ اور قدامت پرست ملک کے دارالحکومت میں گذشتہ تین سالوں میں ایسے کئی کیفے اور کافی شاپس کُھل گئے ہیں جہاں خواتین خود کو آزاد تصور کرتی ہیں اور یہ کیفے اس ارتقا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
یہ کیفے ایک طرح سے خواتین کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوئے ہیں اور سب کچھ ایک ایسے مذہبی انتہا پسند معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں آج بھی خواتین کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں جبکہ غیر مردوں سے ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
18 سال پہلے افغانستان پر طالبان کی حکمرانی تھی، جنہوں نے عورتوں پر برقعے اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پاپندی عائد کی تھی اور افغان خواتین تعلیم، صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم تھیں لیکن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان خواتین بڑے پیمانے پر گھر سے نکلیں اور تعلیم، صحت، سیاست اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔
ان کافی شاپس اور کیفیز میں آج کل خواتین کا موضوع قطر میں ہونے والے مذاکرات ہیں جہاں امریکہ اور طالبان امن عمل پر بات چیت کر رہے ہیں۔
جب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا ہے افغان خواتین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں طالبان واپس حکومت کا حصہ نہ بن جائیں اور افغان خواتین گذشتہ 18 سال کی جدوجہد سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
کیفیز میں موجود خواتین اپنی گفتگو میں اس دوران حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور طالبان دور کے محرومیوں کے واقعات بیان کرتی ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے 28 سالہ آرٹسٹ مریم غلام علی کا کہنا تھا: ’ہم اس بارے میں کافی فکر مند ہیں اور ہم ایک دوسرے سے سوال پوچھتی ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے تو ان کا مستقبل کیا ہو گا۔‘
’جب ہم کیفے آتی ہیں تو خود کو آزاد تصور کرتی ہیں کیوں کہ یہاں کوئی ہمیں سر ڈھانپنے کے لیے مجبور نہیں کرتا۔‘
کابل کے ابھرتے ہوئے کیفے اور کافی شاپس ان خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں جو طالبان دور میں بہت چھوٹی تھیں یا پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔ ہدیس بھی ایسی ہی لڑکی ہیں جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئی تھیں لیکن انہوں نے اس دور کی ہولناک کہانیاں سن رکھی ہیں۔
یہ وہ خواتین ہیں جو سمارٹ فونز کی دنیا میں پَلی بڑھی ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کر سکتی ہیں۔ یہ ان طالبان کو حکومت کا حصہ بننے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں جو خواتین کو فحاشی کے الزام میں سنگسار کر دیا کرتے تھے۔
26 سالہ صحافی فرح ناز، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ’مائے ریڈ لائن‘ مہم شروع کی تھی، بھی اکثر ان کافی شاپس پر جاتی ہیں۔ ان کی فیس بک وال پر ان کی کافی شاپس میں لی گئیں بےشمار تصوریں موجود ہیں جو بقول ان کے ان کی ریڈ لائن ہے۔
ایک کیفے کی میز پر بیٹھی فرح ناز کا کہنا تھا کہ کافی کے لیے آنا اور یہاں دوستوں سے گپ شپ کرنا انہیں بے حد پسند ہے اور اس سے انہیں بے پنا خوشی ملتی ہے۔ ’میں اس کی قربانی نہیں دے سکتی۔‘
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان سے یہ آزادی بھی چھین جائے گی۔
’میں کسی کی بہن یا بیٹی کہلانے جانے کی بجائے انفرادی طور پر بطور انسان اپنی پہچان خود بنانا چاہتی ہوں۔‘
تاہم خواتین کے لیے کابل کے ان کیفے کی دیواروں کے باہر کی دنیا ابھی بھی تاریک ہی ہے جہاں ان کے حالات سست روی کا شکار ہیں۔
فرح ناز کا کہنا تھا: ’آج بھی گلیوں میں ہمیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں ہم پر جسم فروش، مغرب زدہ اور جمہوری نسل جیسے فقرے کسے جاتے ہیں۔‘
افغانستان خواتین کے لیے دنیا کا بدترین ملک ہے اور یہ کئی دہائیوں سے اس فہرست میں سرفہرست ہے۔ یہاں فرسودہ روایات اب بھی قائم ہیں جن میں غیر شادی شدہ خواتین پر ان کے والد اور شادی کے بعد شوہر کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مرضی کے بغیر کزن یا قریبی رشتے دار سے ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ دیہاتی علاقوں میں ان کو بڑی عمر کے مردوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے اور کسی غیر مرد سے ملنے پر انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔
خواتین کے تحفظ کے حوالے سے 2009 میں پاس ہونے والے قانون پر کم ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے اور کئی علاقوں میں اب تک اس کا اطلاق ہی نہیں ہو پایا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ کیفے اور کافی شاپس حملوں سے محفوظ ہیں۔ 2014 میں کابل کے معروف ٹیورنا ڈی لبین کیفے پر طالبان کے خودکش حملے میں غیرملکیوں سمیت 21 افراد مارے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے کے بعد حکومت نے مزید حملوں سے بچنے کے لیے کئی کیفیز اور گیسٹ ہاؤسز کو جبری طور پر بند کر دیا تھا۔ دو سال تک سماجی سرگرمیاں کابل کی نجی محفلوں تک محدود ہو گئی تھیں لیکن 2016 میں کیفے اور کافی شاپس کا رواج دوبارہ بحال ہونا شروع ہوا اور آج ایسے کئی کیفے اور کافی شاپس میں مخلوط گہما گہمی دیکھی جا سکتی ہے۔
بڑے شہروں کابل، ہرات اور مزارِ شریف کے علاوہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں چند ہی ایسے کیفے موجود ہیں جہاں خواتین اور مرد ایک چھت تلے جمع ہو سکتے ہیں۔
زیادہ تر ریستورانوں میں اب بھی مردوں کے لیے الگ ہالز جبکہ خواتین اور بچوں کے لیے فیملی ہال مختص ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے کابل کے کیفے خواتین کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہیں جہاں وہ اپنے جیسے افراد سے مل سکتی ہیں۔
افغان نژاد امریکی اداکارہ فرشتہ کاظمی بھی ان کیفے کی مستقل گاہک ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانی فطرت بھی مذہب کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔
2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد خواتین کے لیے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے کُھل گئے اب وہ کابل کے سرکاری اور نجی دفاتر میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور اپارٹمنٹس میں اکیلی یا دوستوں کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔
افغان آئین میں خواتین کے لیے پارلیمان کی 250 نشتوں میں سے 68 خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔
کابل کے کیفے اور کافی شاپس میں خواتین انہیں کامیابیوں کے حوالے سے بات کرتی سنائی دیتی ہیں۔
30 سالہ مینہ رزائی نے ایک برس قبل کابل میں ایک کافی شاپ کا افتتاح کیا تھا وہ خواتین کو ایک ایسی جگہ مہیا کرنا چاہتی تھیں جہاں مغربی لباس یا مردوں کے ساتھ بیٹھنے پر ان کو ہراساں نہ کیا جا سکے۔
مینہ نے خواتین اور نوجوان مردوں سے بھری ایک میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا: ’خواتین یہاں کی روایات بناتی ہیں نہ کہ مرد۔‘
’زرا ان کی طرف دیکھو، مجھے یہ [ماحول] پسند ہے۔ طالبان کو اپنے نظریات بدلنے کی ضرورت ہے نہ کہ ہمیں، یہ ہماری ریڈ لائن ہے۔‘
قندھار سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ طاہرہ محمدزئی شیرخوار بچی تھی جب طالبان پورے افغانستان پر حکمرانی کر رہے تھے، ان کا خاندان ایران ہجرت کر گیا تھا جو سات سال پہلے واپس وطن لوٹے ہیں۔
کابل کی یونیورسٹی میں زیرتعلیم طاہرہ نے جیکسن کیفے میں کافی کی چُسکی لیتے ہوئے بتایا: ’میں نے اس [طالبان] دور کے بارے میں اپنی والدہ سے بہت کچھ سنا ہے اور یہ کہ اس وقت زندگی کتنی مشکل تھی۔ اب اس دور میں دوبارہ لوٹنا ممکن نہیں ہے۔‘
’میری ریڈ لائن یہ ہے کہ میں 18 سال سے جاری اس جنگ میں جینا زیادہ بہتر سمجھوں گی بجائے اس کے کہ طالبان کو حکومت میں شامل کر لیا جائے۔‘
’اگر وہ [طالبان] دوبارہ [اقتدار میں] آ گئے تو میں وہ پہلی شخص ہوں گی جو افغانستان سے فرار ہو جاؤں گی۔‘
دوسری جانب چھوٹے سیاہ بالوں والی فرح ناز کا کہنا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں وہ ادھر ہی رہنا پسند کریں گی۔
’میری خواہش ہے کہ ایک کیفے مرد سیاست دانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے جن کی ایک ہی ترجیح ہو اور وہ ہے امن۔‘