تقریباً 19 سال قبل کیلیفورنیا کے ساحل پر ایک سہ پہر امریکی بحریہ کے پائلٹ ڈیوڈ فریور نے ایک ایسی چیز دیکھی جس نے ان کے ماضی کے مشاہدات کو چیلنج کر دیا۔
ایف/اے-18 ہارنیٹس کے سکواڈرن کے ساتھ معمول کے تربیتی مشن کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے آسمان میں کچھ غیر معمولی چیزیں دیکھیں۔
یہ ٹک ٹیک گولیوں کی شکل کی بہت سی اشیا تھیں، جن کا سائز لگ بھگ اس پائلٹ کے جہاز جتنا تھا، لیکن یہ اس طرح حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں جو ہماری سمجھ کے مطابق قوانین فزکس کے برعکس تھی۔
کچھ پلک جھپکتے ہی 80 سے 20 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گئیں اور کئی سال بعد فریور نے ایک انٹرویو میں کہا، ’جیسے ہی میں قریب گیا تو ان میں سے ایک اس رفتار سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ دور چلی گئی جو میں اپنی زندگی میں کبھی دیکھی تھی۔‘
فریور واحد پائلٹ نہیں تھے جنہوں نے یہ اشیا دیکھیں۔ یہاں تک کہ ایک اور ٹیم ان ٹک ٹیک میں سے ایک کی ویڈیو بنانے میں بھی کامیاب رہی، جو امریکی حکومت کے پانچ سالہ خفیہ تحقیقی پروگرام کا محور اور 26 جولائی کو نامعلوم اڑنے والی اشیا (یو ایف اوز) پر تاریخی سماعت کے دوران کانگریس میں بحث کا موضوع بن گئی تھی۔
ذیلی کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے ابتدائی کلمات میں امریکی قانون ساز رابرٹ گارسیا نے کہا کہ ’رپورٹوں، خبردار کرنے والوں اور غیر معمولی مظاہر کی بڑی تعداد پر سوالات، تحقیقات اور نگرانی ہونی چاہیے، اسی وجہ سے ہم آج یہاں موجود ہیں۔‘
ہمیں یو ایف اوز یا حالیہ امریکی زبان کے مطابق یو اے پی – غیر واضح فضائی مظاہر – کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔
کئی دہائیوں تک آسمان پر گھومنے والے پراسرار جہازوں کی کہانیاں سائنس فکشن یا ایسے سنکیوں کی توجہ کا مرکز رہی ہیں جو جنوب مغربی امریکہ کے ایک پراسرار صحرائی فوجی اڈے ایریا 51 میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جنون رکھتے ہیں۔
لیکن حالیہ برسوں میں اعلیٰ حکام کی جانب سے سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
پینٹاگون نے اس طرح کے یو اے پی کی تحقیقات کے لیے 2007 سے 2012 تک 22 کروڑ ڈالر کا خفیہ پروگرام چلایا۔
حتیٰ کہ سابق امریکی صدر براک اوباما نے بھی وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد اعتراف کیا تھا کہ آسمان میں گھومنے والی پراسرار اشیا کے شواہد موجود ہیں۔ انھوں نے دو سال قبل کہا تھا، ’وہ کیسے حرکت کرتی ہیں اور ان کی حرکت کی سمت کیا ہے، ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔‘
گذشتہ ماہ کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی سماعت نے ’دی ایکس فائلز‘ (سائنس فکشن سیریز) کے فاکس ملڈر (ایف بی آئی کا افسانوی تفتیش کار) کا دل گرما دیا ہو گا۔
فریور سمیت سابق امریکی فوجی عہدیداروں کے ایک گروپ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔
ان میں یہ دعوے بھی کیے گئے تھے کہ امریکی حکومت کے پاس یو اے پیز موجود ہیں اور وہ انہیں خفیہ رکھے ہوئے ہے۔ مالی اعانت سے خفیہ طور پر چلنے والے ان پروگراموں کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ یو اے پیز کو خفیہ رکھیں، غیر زمینی ٹیکنالوجی اور اس ٹیکنالوجی کو ریورس کرنے کی کوششوں میں جن لوگوں کو نقصان پہنچا یا زخمی ہوئے انہیں چھپائیں۔ جائے وقوعہ سے ملے ’غیرانسانی‘ ملبے کی باقیات کی برآمدگی کو بھی صیغہ راز رکھیں۔
ایک موقعے پر ایک سابق امریکی انٹیلی جنس افسر ڈیوڈ گروش سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت نے ایلیئنز سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر میں عوامی سطح پر بات نہیں کر سکتا‘ اور حیرت زدہ قانون دان انہیں دیکھتے رہ گئے۔
ڈیوڈ گروش کے انکشافات کے جواب میں ناسا اور محکمہ دفاع دونوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ماورائے زمین زندگی یا ٹیکنالوجی کے شواہد موجود ہیں جن پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔
لیکن ایک ایسی امریکی حکومت پر بھروسہ کرنا مشکل ہے جو غیر ضروری طور پر معلومات کی خفیہ کے خانے میں ڈال دیتی ہے، اور خفیہ معلومات کو اس طرح تقسیم کر دیتی ہے کہ حکام اسے رد کر سکیں۔ اس کے باوجود اوپر بیان کردہ بیانات پریشان کن ہیں۔
ذیلی کمیٹی میں شامل ڈیموکریٹس اور رپبلکنز، جو عام حالات میں مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں، ان انکشافات میں دلچسپی لیتے نظر آئے اور ان گواہوں کے ساتھ اچھا برتاو کرتے نظر آئے، جن کا مستقبل اپنی صاف گوئی کے باعث متاثر ہوا تھا۔
الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز نے نجی شعبے کے خفیہ کنٹریکٹرز کے استعمال کے بارے میں سخت سوالات پوچھے جو عوامی احتساب کے عام اصولوں کے تابع نہیں ہیں۔
اوکاسیو کورٹیز نے گواہوں سے پوچھا، ’اگر آپ میری جگہ ہوتے کیا دیکھتے؟‘
پراسرار اشیا کی اطلاع دینا ایک ایسا کلنک ہے جو تجارتی اور فوجی دونوں پائلٹوں کے لیے خطرات اور دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔
رات کے وقت آسمان میں پراسرار اڑن طشتریوں کے دعوے کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ لیکن تازہ ترین دعوے توجہ طلب ہیں۔
عینی شاہدین اور قانون سازوں دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پراسرار اشیا کی اطلاع دینا ایک ایسا کلنک ہے جو تجارتی اور فوجی دونوں پائلٹوں کے لیے خطرات اور دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔ اگر کسی پائلٹ کو کوئی غیر معمولی چیز نظر آتی ہے تو اس کی اطلاع دے کر کیریئر کے نتائج بھگتنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔
قانون ساز گارسیا کا کہنا تھا، ’کمرشل اور ملٹری دونوں پائلٹوں کے لیے محفوظ اور شفاف رپورٹنگ کا عمل ہونا چاہیے تاکہ وہ یو اے پیز کی رپورٹنگ کر سکیں۔‘
ممکنہ خطرات حقیقی ہیں۔ سماعت کے دوران گواہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ انہوں نے جو مظاہر دیکھے یا جن کے بارے میں سنا وہ انسانیت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے ایک قانون ساز کے اس اندازے کی تصدیق کی کہ جن چیزوں کا سامنا ہوا، ان میں سے کچھ جو خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شواہد ایک ممکنہ 'وجودی' خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا مقابلہ مشکل ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فریور نے 2004 میں ٹک ٹیک کے قریب جانے کے متعلق کہا، ’ہمارا سامنا جس ٹیکنالوجی سے ہوا وہ ہمارے پاس موجود کسی بھی چیز سے کہیں بہتر تھی۔‘
امریکی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر گروش سازشی سے زیادہ کامیاب فوجی افسر دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے افغان جنگ میں خدمات انجام دیں اور پھر یو اے پیز پر پینٹاگون کے ایک انتہائی حساس پروگرام میں کام کیا۔
انہوں نے جلد ہی سیکھ لیا کہ کسی پر بھروسہ مت کریں۔ انہوں نے جون میں اپنے انکشافات کے ساتھ عوامی سطح پر آنے سے پہلے ایک وکیل کی خدمات حاصل کر کے قانونی تحفظ مانگا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھیوں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ جن لوگوں نے اس معاملے کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی تھی، ان کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔
قانون سازوں نے دعویٰ کیا کہ فوجی حکام نے انہیں خفیہ معلومات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک محفوظ کمرے تک رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا اور انہیں ذیلی کمیٹی کی تشکیل اور سماعت شروع کرنے میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
قانون ساز ٹم برشیٹ کا کہنا ہے، ’اس راستے کے ہر قدم پر سخت لڑائی رہی۔‘
انہوں نے اصرار کیا کہ ذیلی کمیٹی کی طرف سے 26 جولائی کی سماعت پہلی تھی۔ لیکن شاید ان سماعتوں سے رازداری کی غیر ضروری وہ دیواریں ٹوٹ جائیں جو کائناتی اور زمینی دونوں معاملات پر امریکی حکومت کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔
© The Independent