وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن رہنما راجہ ریاض کے درمیان جمعرات کو اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے ملک میں نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کی لیکن وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے۔
ملاقات کے بعد قائد حزبِ اختلاف راجہ ریاض نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشاورت کا دوسرا دور جمعے کو ہو گا۔
وزیرِاعظم نے آئین کی روشنی میں قائد حزب اختلاف کو نگران وزیرِاعظم کی تقرری کے لیے مشاورت کے حوالے سے ملاقات کی دعوت دی تھی.
ایوانِ وزیرِاعظم سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں وزیرِاعظم اور قائد حزبِ اختلاف کے مابین نگران وزیرِاعظم کے ناموں پر مشاورت کا پہلا دور خوشگوار ماحول میں ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس اہم قومی معاملے پر مزید سوچ بچار کے بعد کل یعنی 11 اگست کو دوبارہ مشاورت کی جائے گی۔
راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ ان کی شہباز شریف سے ملاقات لگ بھگ ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ’آج سے تین دن کے اندر میں نے اور وزیراعظم صاحب نے نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کرنی ہے، جس کی آج پہلی نشست ہوئی ہے۔‘
اپوزیش لیڈر کا کہنا تھا کہ انہوں نے نگران وزیراعظم کے لیے تین نام تجویز کیے جب کہ تین ہی نام وزیراعظم شہباز شریف نے تجویز کیے۔
’ہم نے فیصلہ کیا ہے جب تک کوئی نام فائنل نہیں ہوتا ہم کوئی نام ظاہر نہیں کریں گے۔ کل چھ نام ہیں جو میرے اور وزیراعظم کے سامنے آ چکے ہیں۔ اب کل ہماری مشاورت ہو گی، بہت امید ہے کہ کل کی ہماری نشست میں چیزیں کافی کلیئر ہو جائیں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’شاید پرسوں بھی ایک نشست ہو۔‘
راجہ ریاض نے صحافیوں سے گفتگو میں یہ بتانے سے انکار کیا کہ نگران وزیراعظم کے لیے مجوزہ شخصیات کا تعلق کن شعبوں سے ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل
پاکستان کی قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 12 اگست کی نصف شب کو ختم ہونا تھی لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے نو اگست اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر عارف علوی کو بجھوائی تھی جو انہوں اس روز منظور کر دی۔
اسمبلی تحلیل کے بعد وزیراعظم شبہاز شریف اور اپوزیشن لیڈر کے پاس تین روز کا وقت ہے جس دوران انہوں نے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق کرنا ہے۔ لیکن اگر وہ ایسی کرتے پھر یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا اور کمیٹی میں بھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر آئین کی روح سے الیکشن کمیشن کو یہ کام کرنا ہے۔
اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائے تو الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کرانا ہوتے ہیں لیکن اسمبلی کی تحلیل سے محض چند روز قبل وفاقی اور صوبائی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں متفقہ طور نئی مردم شماری کی منظوری دی تھی۔
نئی مردم شماری کی منظوری کی صورت میں الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں بھی کرنی ہیں اور اس کام کے لیے الیکشن کمیشن کو 120 دن کی مہلت حاصل ہے۔
نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد اور منتخب حکومت کی غیر موجودگی میں معمول کی حکومتی کام کی انجام دہی ہے۔