نوشہرہ: سرکاری بینک سے 572 تولے سونے کی ڈکیتی کیسے ہوئی؟

پبی پولیس سٹیشن کے اہلکار اکرام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لاکرز کو توڑ کر تقریباً 572 تولے سونا چرایا گیا اور ڈکیت ایک کروڑ سے زائد نقدی بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔‘

نیشنل بینک آف پاکستان کی کراچی میں واقع برانچ کے باہر شہری انتظار کرتے ہوئے (فائنل فوٹو: اے پی پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی تحصیل پبی میں پولیس کے مطابق سرکاری بینک نیشنل بینک آف پاکستان سے گذشتہ رات ڈکیتی کے دوران ڈاکو 572 تولے سونا اور نقدی لے کر فرار ہو گئے۔

یہ واقعہ پبی پولیس سٹیشن کے حدود میں منگل کی شب تقریباً تین بجے پیش آیا۔

بینک مینیجر کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس میں ڈکیتی کی تفصیل اور دیگر تفصیلات بھی درج ہے۔

ڈکیتی کیسے ہوئی؟

پبی پولیس سٹیشن کے اہلکار اکرام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رات کے تقریباً تین بجے ڈکیت نے بینک لوٹنے سے پہلے چوکیدار کو رسیوں سے باندھا۔ 

اکرام کے مطابق اس کے بعد ڈکیت بینک کے اندر داخل ہوئے ہیں اور وہاں موجود ‘سیف’ یا لاکرز کو ویلڈنگ کٹر سے کاٹ کر وہاں سے سونا چرایا۔ 

بینک لاکرز وہ چھوٹی سی لوہے سے بنی الماری یا دراز ہوتا ہے،  جہاں صارفین سونا اور دیگر قیمتی سامان حفاظت کے لیے رکھتے ہیں اور بینک کو اس کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ 

پبی پولیس سٹیشن کے اہلکار اکرام کے مطابق: ’لاکرز کو توڑ کر تقریباً 572 تولے سونا چرایا گیا اور ڈکیت ایک کروڑ سے زائد نقدی بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔‘

بینک کا سکیورٹی الارم کیوں نہیں بجا؟

اس ڈکیتی کے مقدمے میں بینک مینیجر نے لکھا ہے کہ بینک کا ایمرجنسی الارم ڈکیتی کے دوران ایکٹیو نہیں ہوا تھا۔ 

پولیس کے مطابق بینک کا الارم نظام پچھلے دو دنوں سے خراب تھا، جبکہ ڈکیتی کے بعد ڈاکو بینک سے سی سی ٹی وی کیمرے اور ساتھ میں ڈی وی آر (ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر) بھی ساتھ لے گئے۔ 

ڈی وی آر سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ منسلک ڈیوائس ہوتی ہے جس میں کیمروں کی مکمل ریکارڈنگ کچھ دنوں کے لیے سٹور کی جاتی ہے۔ 

بینک میں سکیورٹی الارم کے قواعد کیا ہے؟

پاکستان بینکس ایسوسی ایشن (پی بی اے) پاکستان میں سٹیٹ بینک کے ساتھ منسلک بینکوں کا اتحادیہ ہے جو بینکوں کے حوالے سے پالیسیاں بناتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی بی اے کی بینکوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایک بینک میں برگلری الارم یعنی ڈکیتی کے دوران بجنے والا الارم نظام نصب ہو گا۔ 

یہ الارم ڈکیتی کی کوشش کے دوران کسی دوسرے جگہ موجود کمپنی کو الرٹ کرتا ہے اور دوران ڈکیتی وہاں سے مدد لے کر ڈکیتی کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے قواعد و ضوابط میں لکھا گیا ہے کہ داخلی اور خارجی گیٹ، کیش کاؤنٹر، والٹ کے دروازے، مرکزی ہال اور  اے ٹیم ایم میں کیمرے نصب ہوں گے۔ 

یہ کیمرے پالیسی کے مطابق ڈی وی آر کے ساتھ منسلک ہوں گی، تاہم ڈی وی آر کو برانچ کے اندر کسی خفیہ جگہ میں رکھنا ہو گا تاکہ عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔

اب اگر ڈی وی آر چوری ہو جائے جس طرح نوشہرہ بینک ڈکیتی میں ہوا ہے، تو اسی کے حوالے سے پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ ان کیمروں کی ایک متوازی ریکارڈنگ کسی دوسرے مقام پر بھی یقینی بنانا ہوگی تاکہ کسی ڈکیتی کی تفتیش میں آسانی ہوں۔

نوشہرہ پولیس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ بیمک کو کم از کم اپنا سکیورٹی نظام بہتر بنانا چاہیے کیونکہ اب اس واقعے میں بینک کا الارم سسٹم ہی خراب تھا۔ 

انہوں نے بتایا کہ ڈی وی آر ایک اہم آلہ ہوتا ہے اور اسے کسی خفیہ مقام پر رکھا جاتا ہے، تاہم بینک سے ڈکیتی کے دوران وہ بھی چرا لیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان