ملک میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے منگل کو عندیہ دیا کہ بات چیت میں ضرورت پڑنے پر اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے مدد لی جا سکتی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ وہ معاملہ ہے جہاں پر اسٹیبلشمٹ، عدلیہ یا کسی اور ادارے کی مدد لینا پڑی کہ یہ کیسے کام ہو سکتا ہے تو ہم ضرور لیں گے۔‘
حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین 16 جنوری کو مذاکرات کا تیسرا دور ہونا ہے، جس میں امید کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرے گی۔
اس سے قبل بات چیت کے دو دور ہو چکے ہیں جن میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔
پی ٹی آئی اس بات چیت میں دو اہم مطالبات نو مئی، 2023 اور 26 نومبر، 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام اور پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کی رہائی پر زور دے رہی ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ اگر 31 جنوری تک کمیشن نہ بنا تو مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
کچھ روز قبل سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے نجی ٹیلی وژن چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ’اصل فیصلہ سازوں‘ کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عرفان صدیقی نے اسد قیصر کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ پیش نہیں کیا۔
’انہوں نے شو میں یہ مطالبہ ضرور رکھا ہے لیکن جس مقتدرہ کی وہ بات کرتے ہیں، اس کے دروازے پر بار بار وہ دستک دیتے رہے ہیں، آوازیں دیتے رہے ہیں وہ دروازہ نہیں کھلا۔‘
عرفان صدیقی کے مطابق: ’انہوں نے کہہ دیا کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور یہ ہمارے پاس آ گئے۔ جس فریق سے وہ بات کرنا چاہ رہے تھے اس فریق نے انکار کر دیا تو ہم انہیں پکڑ کر ان کے سامنے بٹھا دیں کہ ان سے بات کریں، یہ ہمارا کام نہیں۔ مذاکراتی کمیٹی اپنا اختیار رکھتی ہے۔‘
’جب پی ٹی آئی ہمارے پاس آئی تو ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جن کے پاس ہم جا رہے ہیں ان کے پاس اختیار ہے یا نہیں۔
’اگر ان کی نظر میں ہم بے اختیار ہیں تو انہوں نے کمیٹی کیوں بنائی؟ سپیکر یا ہمارے پاس کیوں آئے؟ وزیر اعظم سے کمیٹی کی تشکیل پر کیوں بات کی؟ بااختیار ہی سمجھیں جب تک ان پر ہماری بے اختیاری واضح نہیں ہو جاتی۔‘
عرفان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کی مرضی کا جج اور فوجی بھی شامل کر دیں۔ اس وقت تو وہ حکومت سے اور حکومت ان سے بات کر رہی ہے۔
وزیر دفاع اور ن لیگ کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے پیر کو قومی اسمبلی سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے ’اس ماحول میں مذاکرات کے ممکن ہونے پر‘ سوال اٹھایا تھا۔
عرفان صدیقی نے خواجہ آصف کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے، ان کے علاوہ ہمارے جماعت میں اور بھی لوگ ہیں جو ان مذاکرات کو بے ثمر سمجھتے ہیں۔
اسی طرح ’ان کی جماعت (پی ٹی آئی) میں بھی کئی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کس چکر میں پڑ گئے ہیں، یہ نہ کریں۔‘
عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی عدالتی کمیشن بنانے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے متعلق گفتگو میں کہا اگر 31 جنوری تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بھی مذاکرات کے لیے ہمیں آگے جانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’31 جنوری کی ڈیڈ لائن ان کے لیے ضروری ہے، ہمارے نزدیک مذاکرات کا باثمر یا نیتجہ خیز ہونا 31 جنوری سے زیادہ بڑا ہدف ہے۔‘
انہوں نے کہا ’31 جنوری کو مذاکراتی کمیٹی تحلیل نہیں کریں گے۔ ہماری کمیٹی موجود رہے گی اور مذاکرات کا تقاضہ یہ ہے کہ آگے جایا جائے، ہم تیار ہیں لیکن اس کا انحصار ان پر ہے کہ وہ 31 جنوری سے آگے جاتے ہیں یا نہیں۔‘
عرفان صدیقی کے مطابق اتحادی جماعتیں مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہیں، پی ٹی آئی جن تحریری مطالبات کی بات کر رہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔
’23 دسمبر کو پہلے اجلاس میں طے ہو گیا تھا اور پی ٹی آئی نے خود بھی باہر جا کر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہم تحریری طور پر مطالبات لے آئیں گے لیکن اب 22 روز گزر چکے ہیں، مطالبات ابھی تک نہیں آئے۔‘
سینیٹر عرفان اس سے قبل خبردار کر چکے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے تو مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات کو عمران خان کی اجازت ملنے سے مشروط کیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی 12 جنوری کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات ہوئی۔
ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ عمران خان نے تحریری مطالبات پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ تیسری بار پیر کو ملتوی ہو گیا۔
اس پر میڈیا میں قیاس آرائیاں کی گئی کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات عمران خان کے خلاف فیصلے سے مشروط ہیں۔ اس حوالے سے عرفان صدیقی نے واضع کیا کہ فیصلے میں تاخیر کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔