وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رعنا انصاری کے درمیان ہفتے کی صبح ہونے والی ملاقات میں نگراں وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
سندھ حکومت آئینی طور پر گذشتہ رات تحلیل ہوچکی ہے۔
ترجمان وزیر اعلی سندھ کے مطابق نگران وزیراعلیٰ کے لیے مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر رعنا انصاری کے درمیان ملاقات میں سابق وزیر ناصر شاہ بھی موجود تھے۔
ملاقات میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رعنا انصاری کی جانب سے نگران وزیراعلیٰ کے لیے کوئی نام نہیں دیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب تک نگران وزیراعلیٰ نہ آجائے تب تک میں وہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔
مراد علی شاہ کے مطابق: ’اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کے مطابق تین دن میں مجھے اور اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیراعلیٰ کے نام کے لیے صلاح مشورہ کرنا ہے۔
’اگر ہم کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور متفق ہوتے ہیں تو نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوجائے گا۔ ہمارے درمیان اتفاق نہ ہونے کی صورت میں سابق ممبران اسمبلی پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس کے پاس فیصلے کے لیے تین دن ہوں گے۔
’اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اور وہ دو دن میں فیصلہ کرے گا۔‘
اُدھر ہفتے کی صبح متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے رابطہ کمیٹی کے رکن بیرسٹر فروغ نسیم اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے آج باظابطہ طور پر وزیر اعلی سندھ سے ایم کیو ایم کی پہلی مشاورت ہوئی ہے، مگر ملاقات میں مراد علی شاہ نے نگراں سیٹ اپ کے لیے کوئی نام دینے کے بجائے کہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے مشاورت کے بعد نام دیں گے۔
مصطفیٰ کمال کے مطابق: ’جب پیپلز پارٹی کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے نام آئیں گے تو ہم بھی نام دے دیں گے۔‘
مصطفیٰ کمال نے کہا سندھ حکومت تحلیل ہونے سے چند روز قبل صوبائی حکومت 16 سے 18 گریڈ کی 50 ہزار ملازمتیں بغیر میرٹ کے دینے جا رہی تھی۔
’سندھ حکومت نے بھرتیوں کے لیے اخبارات میں 106 سے زائد اشتہارات دیے۔ یہ ملازمتیں پچھلی تاریخوں میں دی جا رہی تھیں۔ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کی جانب سے ان ملازمتوں کو عدالت میں چلینج کردیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ان پر سٹے آرڈر دیتے ہوئے روک دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’ہمیں روزگار دینے پر مسئلہ نہیں ہے لیکن میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو کوٹہ دیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ سکھر کے آئی بی اے سے ٹیسٹ پاس کریں تو کراچی میں نوکری ملی گی۔ کراچی کا کونسا بچہ کراچی سے سکھر ٹیسٹ دینے جائے گا۔ شہری اور دیہی کوٹہ نہیں اصل میں یہ لسانی کوٹہ ہے۔ پورے پاکستان کا کوٹہ جامعہ کراچی میں ہے لیکن کراچی والوں کےلیے کسی بھی جامعہ میں کوٹہ نہیں ہے۔‘
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ’کراچی کی آبادی ایک کروڑ 38 لاکھ بتاکر مردم شماری بند کردی تھی۔ ہم نے دھرنا دیے بغیر کراچی کا مقدمہ بہترین طریقے سے لڑا۔ ہم نے کراچی کی آبادی ایک کروڑ 38 لاکھ سے ایک کروڑ 91 لاکھ تک پہنچایا ہے۔‘
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مصطفیٰ کمال کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ صوبے کی ترقی ہو، ان کی وہی سوچ ہے جو الطاف حسین والی تھی، ہم نے سب طریقہ کار کے تحت عمل کیا اور یہ لوگ عدالت چلے جاتے ہیں۔
’سندھ کے لوگوں کو جائز اور میرٹ پر دی جانے والی نوکریاں بند کروائی گئیں۔ عدالت کی ہدایت پر اشتہار دے کر ہم نے ٹیسٹ کے ذریعے بھرتیاں شروع کیں۔ ہم پر عوام کا دباؤ تھا، ہم نے ٹیسٹ کروائے اور نوکریاں دینا شروع کیں۔‘
وزیراعلیٰ سندھ نے نوکریوں پر پابندی پر شدید احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’کسی کو بھی روزگار دینے سے ایک گھر کا چولھا چلتا ہے۔ پابندی لگوا کر پیغام دیا گیا کہ عوام کے چولھے بند کئے جائیں۔
’کسی بھی بڑے وکیل کو ہائر کرکے عدالت سے سٹے آرڈر دلوایا گیا۔ لوگوں کے چولھے بند کرنے کے لیے تو سٹے آرڈر نہ دلوائیں۔ اس اقدام پر پورا سندھ احتجاج کرے گا۔
’کراچی ہمارا نہیں تو پھر عوام نے ہمارے میئر کو منتخب کیوں کیا؟ ایم کیو ایم کو کہتا ہوں کہ الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ آئندہ نہ کریں تو بہتر ہے۔‘
مصطفیٰ کمال کی جانب سے سندھ حکومت کو مودی سرکار سے تشبیہ دینے پر ردعمل دیتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ گجرات کے قصائی کو سندھ کے منتخب حکومت سے بہتر کہنا ملک دشمنی ہے۔ اس سے ملک میں تعصب کی فضا پھیلائی جارہی ہے۔