1980 میں میٹرک کے امتحان سے فراغت کے بعد جب میں راولپنڈی گیا تو ایک روز احمد فراز سے ملاقات کے لیے پہلی باراسلام آباد کا بھی سفر کیا۔
یہ جون کا مہینہ تھا، فراز صاحب اس زمانے میں پاکستان نیشنل سینٹر اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر تھے۔ وہ میری شاعری کا ابتدائی دور تھا اور فیض احمد فیض اور احمد فراز میرے آئیڈیل تھے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میرے لیے اجنبی شہر تھے۔ اس روز میں پہلی بار راولپنڈی کی سڑکوں پر تنہا نکلا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ احمد فراز نیشنل سینٹر میں ہوتے ہیں مگریہ معلوم نہیں تھا کہ نیشنل سینٹر کہاں ہے۔ میں مری روڈ سے اسلام آباد اور پھر وہاں پوچھتا پوچھتا نیشنل سینٹر کے دفتر جا پہنچا۔ جگہ کون سی تھی یہ تو مجھے یاد نہیں، شاید آب پارہ کے قریب کہیں دوسری منزل پر نیشنل سینٹر کا دفتر تھا۔
میں سیڑھیاں چڑھ کر دفتر میں داخل ہوا اور جب سامنے والے کمرے کے باہر مجھے احمد فراز کے نام کی تختی نظرآئی تو میری حالت عجیب تھی۔ میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا، ملے جلے جذبات تھے۔
یہ خوشی کہ بالآخر میں نے احمد فراز کو تلاش کر لیا، یہ خوشی کہ چند لمحوں میں وہ میرے سامنے ہوں گے اور یہ خوشی کہ میرا پنڈی کا سفر رائیگاں نہیں گیا، لیکن اس خوشی کے ساتھ ساتھ گھبراہٹ بھی تھی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنے بڑے شاعر کو ملنے جا رہا ہوں تو بات کیسے شروع کروں۔ ایک رعب، ایک دبدبہ مجھ پر طاری ہو گیا۔ جب میں نے کمرے کا دروازہ کھولا، احمد فراز ایک کرسی پرتشریف فرما تھے۔ کمرے میں سگریٹ کا دھواں اور سامنے صوفے پر ایک خاتون (افسانہ نگار رخسانہ صولت ) بیٹھی تھیں۔
میں ابھی بات کرنے اورکمرے میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے لفظ ہی تلاش کر رہا تھا کہ ایک بہت ملائم، محبت بھری اور مشفق آواز نے مجھے چونکا دیا، ’آئیں، آئیں،آ جائیں، آئیے آیئے۔‘
یہ ان کا مخصوص جملہ تھا جو بعد کے دنوں میں بھی بار بار سنا مگر اس پہلے جملے کی بازگشت آج بھی سماعتوں میں موجود ہے۔
میں نے آٹوگراف لیا اور تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔ آٹو گراف بک کھولی، اس پرلکھا تھا:
یہاں پیہم قبیلے قتل ہوں گے
یہاں شوقِ عزاداری بہت ہے
بھٹو صاحب کی پھانسی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ اس تناظر میں اس شعر نے بہت لطف دیا مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ قتل تو صرف ایک شخص ہوا تھا، پھانسی تو صرف بھٹو کو دی گئی تھی پھرفراز قبیلوں کے قتل ہونے کا ذکر کیوں کر رہے تھے؟
مجھے یہ بات بہت عرصے بعد اب سمجھ میں آئی جب بلوچستان اور وزیرستان میں قبیلے کے قبیلے قتل کیے گئے اور جب بھٹو کا پورا قبیلہ بھی قتل ہو چکا ہے لیکن ہمارا شوق عزاداری اب بھی سلامت ہے۔
اس پہلی ملاقات کے بعد فراز صاحب کے ساتھ ایک طویل عرصہ ملاقات نہ ہو سکی۔ بعد کا زمانہ ضیا آمریت کے عروج کا تھا۔ احمد فراز سمیت بہت سے ترقی پسند دانش ور یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
فراز صاحب نے ایک طویل عرصہ لندن میں گزارا۔ ہمیں کبھی کبھار ان کی کوئی تصویر،ان کی غزل یا ان کا کوئی بیان اخبارات میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتا تھا۔
پہلی ملاقات کے 14 سال بعد احمد فراز سے ہماری دوسری ملاقات 1994 میں ہوئی۔ ملاقات کا بہانہ وہ اہل قلم کانفرنس بنی جس کا انعقاد اکادمی ادبیات پاکستان نے کیا تھا اورجس میں ملک کے طول وعرض سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تین روزہ کانفرنس کے میزبان اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین فخرزمان تھے۔ کانفرنس کی ایک نشست سے وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹو نے بھی خطاب کیا جبکہ آٹھ اکتوبر 1994 کو ایوان صدر اسلام آباد میں اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے ادیبوں، شاعروں کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا۔
شاکر اور قمررضا شہزاد تو 1986 یا 87 کے دوران ہونےوالی اہل قلم کانفرنس میں بھی شرکت کر چکے تھے لیکن ہم پہلی بار اس کانفرنس میں شریک ہوئےتھے۔ اسی بہانے ایوان صدر بھی دیکھنے کا پہلی بارموقع ملا۔
وہاں ان دنوں ملتان کے دوستوں کا راج تھا۔ معروف سیاست دان اور ہمارے دوست قسور سعید مرزا ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ ایوان صدر کے عہدے پر فائز تھے جبکہ نامورصحافی اور دانشور مظہر عارف بھی ان کے ساتھ ایوان صدر کے شعبہ تعلقات عامہ میں ہی اہم منصب پر فائز تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختلف ہوٹلوں سے ادیبوں، شاعروں کو بسوں میں بٹھا کر ایوان صدرلایا گیا اور معمولی سے سکیورٹی مراحل طے کرنے کے بعد تمام ادیب، شاعر ایوان صدر میں داخل ہو گئے۔
چند برس قبل اہل قلم کانفرنس کے موقع پر ادیبوں اورشاعروں کو ایوان وزیراعظم میں داخلے کے وقت جس تذلیل کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح ان کی طویل قطاروں کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئیں انہیں دیکھ کر ہمیں 1994 کی کانفرنس بہت یاد آئی کہ ادیبوں اور شاعروں کو کس طرح انتہائی عزت و احترام اور وقار کے ساتھ ایوان صدر لے جایا گیا تھا۔
کشیدگی اس زمانے میں بھی ہوتی تھی۔ سیاسی تحریکیں بھی چلتی تھیں۔ اپوزیشن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کرتی تھی اور پارلیمنٹ اور ایوان صدر کے گھیراﺅ کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں لیکن اس کے باوجود سکیورٹی کے مراحل تضحیک آمیز نہیں ہوتے تھے۔
ایوان صدر کے لان میں اگرچہ ادیبوں اور شاعروں کے لیے کرسیاں بھی بچھائی گئی تھیں لیکن کرسیوں پر کس نے بیٹھنا تھا سب مختلف کونوں میں گروپوں کی صورت میں خوش گپیوں میں مصروف تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بنوائی جا رہی تھیں۔
کیمرے اس زمانے میں آج کی طرح عام نہیں تھے۔ فلمیں لوڈ کرکے انہیں ڈویلپ کروانا پڑتا تھا۔ یہ ایک مہنگا کام تھا اس لیے لوگ غیرضروری تصاویر بھی نہیں بناتے تھے۔ اب مجھے نہیں یاد کہ یہ تصویر سبطین رضا لودھی کے کیمرے سے بنائی گئی یا سجاد حیدر پرویز نے مہربانی کی، لیکن مجھے یہ ضروریاد ہے کہ ہمیں یہ تصویربنوانے کے لیے بہت دیر انتظار کرنا پڑا تھا۔
فراز صاحب اپنے پرستاروں میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ تصویر بنوانے والوں کی ایک طویل قطار تھی۔ احمد فراز کے ساتھ تصویر بنوانے کا ہمیں بھی بہت اشتیاق تھا کہ ان کے ساتھ اس سے پہلے ہماری کوئی تصویر نہیں تھی اور ہوتی بھی کیسے۔ میری ان کے ساتھ دوسری اور شاکر کی پہلی ملاقات ہو رہی تھی۔
طویل انتظار کے بعد ہماری بھی باری آ گئی۔ احمد فراز کے ساتھ ایک سے زیادہ تصویریں بنوائی گئیں۔ ایک تصویر میں مَیں اور شاکر ان کے ساتھ اکیلے تھے۔ ہم نے کسی اور کو اس گروپ میں شامل نہیں ہونے دیا لیکن اور بہت سی تصاویربھی تھیں جن میں مختلف نوجوان فراز صاحب کے ساتھ موجود ہیں۔ یقیناً وہ تصاویران سب نوجوانوں کے پاس آج بھی موجود ہوں گی۔
آج جبکہ احمد فراز اس دنیا میں موجود نہیں اور وہ سب نوجوان بھی نوجوان نہیں رہے یہ تصاویر مزید اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ احمد فراز کے ساتھ یہ پہلی تصویر ہم نے بہت انتظار کے بعد بنوائی تھی، لیکن بعد کے دنوں میں ان کے ساتھ بہت سی تصویریں بنوانے کا اتفاق ہوا۔
کئی تقریبات میں ان کے ساتھ شرکت کی اور ان کے ساتھ ہم سفر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جس طرح اس تصویر کے لیے ہمیں قطار میں اور انتظار میں رہنا پڑا، بعد کے دنوں میں بہت سے نوجوانوں کو ایسی ہی کیفیت میں دیکھا اور ہم نے اپنی جگہ چھوڑ کر انہیں فراز صاحب کے ساتھ تصاویر بنوانے کا موقع بھی دیا۔ ہمارے البم میں فراز صاحب کی بہت سی تصاویر موجود ہیں لیکن یہ تصویر ان سب سے اہم ہے کہ یہ ہماری ان کے ساتھ پہلی تصویر ہے۔