افغانستان میں طالبان حکومت کے دو سال: کہیں جشن تو کہیں خدشات

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے اقتدار میں واپسی کے دو سال مکمل ہونے پر منگل کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اقتدار میں واپسی کے دو سال مکمل ہونے پر منگل کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 15  اگست 2021 کو امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے اور لیڈرشپ کی جلاوطنی پر اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے سخت قوانین نافذ کیے ہین جن کے تحت خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جنہیں اقوام متحدہ نے ’صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔

15 اگست 2021 کے دو سال مکمل ہونے پر حکام نے منگل کی صبح جاری ہونے والے ایک بیان میں اس فتح کو سراہا گیا جس نے ’افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار‘ کی۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کابل کی فتح نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کوئی بھی افغانستان کی قابل فخر قوم کو کنٹرول نہیں کر سکتا اور کسی بھی حملہ آور کو ملک کی آزادی اور خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

منگل کی صبح کابل کی پرسکون سڑکوں پر طالبان کے قافلے امریکی سفارت خانے کی خالی عمارت کے قریب مسعود سکوائر پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔

ان میں سے کچھ افراد نے ہتھیار اٹھا رکھے تھے جبکہ دیگر نے مسکراتے ہوئے سیلفیاں کھینچیں جب ترانے بج رہے تھے اور نوجوان لڑکے طالبان کا سفید پرچم فروخت کر رہے تھے۔

مغرب میں صوبہ ہرات میں طالبان کے حامیوں کا ایک ہجوم نعرے لگا رہا تھا: ’یورپ مردہ باد، مغرب مردہ باد، اسلامی امارت افغانستان زندہ باد، امریکہ مردہ باد۔‘

’جشن منانا چاہیے‘

اس وقت جب مختلف شہروں میں تقریبات کا آغاز ہو رہا تھا، قندھار میں فوجی پریڈ منسوخ کر دی گئی جو طالبان تحریک کا گڑھ ہے اور جہاں سے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ حکومت چلاتے ہیں۔

صوبائی حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ ہفتوں تک جاری رہنے والے انخلا کے بعد بین الاقوامی افواج کی جانب سے چھوڑی گئی بڑی تعداد میں فوجی گاڑیاں اور ہتھیاروں کی متوقع شرکت کے باعث، اخوندزادہ نے پریڈ خود ہی منسوخ کر دی تاکہ عوام کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

کابل میں وزارت تعلیم نے شہر کے ایک سکول میں تقریب کا اہتمام کیا جہاں کبھی سفارت کاروں کا رش ہوتا تھا، جو اب اس ملک میں بہت کم ہیں- طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔

کابل یونیورسٹی میں ایک تقریب میں میڈیکل کے ایک طالب علم نے اے ایف پی کو بتایا کہ جشن منانا بہت ضروری ہے۔

21 سالہ مرتضیٰ خیری نے کہا کہ ’ہمیں آج جشن منانا چاہیے۔ آج کا دن ہمارے ملک میں قبضے کے خاتمے کی علامت ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے۔‘

بین الاقوامی برادری اس بات پر بدستور غور کر رہی ہے کہ خواتین پر پابندیوں کی موجودگی میں طالبان کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے۔

خواتین پر پابندیوں میں عوامی مقامات اور کام پر نہ جانے اور تعلیم کے حصول پر پابندی شامل ہے جو امداد اور تسلیم کیے جانے کے حوالے سے مذاکرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے پیر کو طالبان حکام کی جانب سے 1996 سے 2001 تک اقتدار میں اپنے پہلے دور حکومت کے مقابلے میں نرم حکمرانی کے وعدوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ماہرین نے ایک بیان میں کہا کہ ’حکام کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود کہ کوئی بھی پابندی، خاص طور پر کہ تعلیم تک رسائی کے معاملے میں عارضی ہو گی، زمینی حقائق صورت حال کو مختلف انداز میں دکھاتی ہے۔‘

’اپنی آزادی واپس چاہتی ہیں‘

طالبان کے اقتدار کے دوسال مکمل ہونے سے قبل افغان خواتین نے اپنے حقوق سے محرومی پر خوف اور مایوسی کا اظہار کیا ہے اور مٹھی بھر افراد نے چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے، جن کے چہرے ماسک سے ڈھکے ہوئے تھے۔

لیکن افغانوں نے طالبان حکومت کے بعد سے جاری معاشی اور انسانی بحران پر بھی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ عالمی برادری سے ملنے والی امداد ختم ہو گئی اور پابندیاں عائد ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسان راحت اللہ عزیزی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنی فصلوں سے روزی کماتے تھے لیکن اب ان کے پاس صرف کھانے کے لیے بچا ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہے اور اب وہ رات کے وقت بلاخوف سفر کر سکتے ہیں۔

تاہم گذشتہ دو برسوں کے دوران افغانستان میں تشدد میں کمی آئی ہے لیکن داعش ایک خطرہ بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی علاقوں میں حملوں میں اضافے پر دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

طالبان حکام نے وعدہ کیا ہے کہ غیر ملکی عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو بیرون ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔

جہاں کچھ افغان جنگ کے خاتمے اور طالبان کی حکمرانی کا جشن منا رہے ہیں، وہیں کچھ لوگ 15 اگست کو ایک تلخ یاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سابق طالب علم حماسہ باور کہتی ہیں کہ ’افغانستان کی تمام لڑکیاں اور عورتیں اپنی آزادی واپس چاہتی ہیں۔‘

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ ’فتح کابل کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ہم افغانستان کی مجاہد قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے اس عظیم فتح پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔‘

منگل کو تعطیل کے موقعے پر دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتظامات سخت ہیں اور طالبان اہلکار چیک پوسٹس پر تعینات ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’اب ملک میں مجموعی طور پر سکیورٹی کو یقینی بنایا جا چکا ہے۔ پورے ملک کو ایک ہی قیادت میں منظم کیا گیا۔ ایک اسلامی نظام نافذ ہے اور ہر چیز کی وضاحت شریعت کے زاویے سے کی جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا