نگراں حکومت میں ٹیکنوکریٹس کی روایت

ملک میں جتنے بھی حکمرانی کے تجربات ہوئے ان تمام طرز حکمرانی میں ٹیکنوکریٹس شامل رہے حتی کہ ٹیکنوکریٹ صدور اور وزرائے اعظم بھی ملکی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔

پاکستان کی نگران کابینہ 17 اگست 2023 کو ایوان صدر میں حلف اٹھا رہی ہے جس میں زیادہ تعداد ٹیکنوکریٹس کی ہے (ایوان صدر)

سیاست دان اور نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے اپنی کابینہ کے لیے تمام غیر سیاسی یا دوسرے الفاظ میں ٹیکنوکریٹس کو چنا ہے۔

وفاقی کابینہ میں نگران وزرا کو وہی قلمدان دیے گئے ہیں جن شعبوں سے وزرا کا تعلق رہا ہے یا وہ اس میں مہارت رکھتے ہیں۔

ویسے تو ٹیکنوکریٹس وزرا لگ بھگ ہر دور میں رہے ہیں لیکن ٹیکنوکریٹس پر مشتمل پہلی نگران کابینہ 1993 میں بنی اور اس کے بعد کبھی کابینہ کے سربراہ یا کابینہ کے ارکان اور کبھی پوری کی پوری کابینہ ہی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل رہی۔

ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت کی اصطلاح سیاسی نظام کے لیے کوئی نئی نہیں ہے۔ ملک میں جتنے بھی حکمرانی کے تجربات ہوئے ان تمام طرز حکمرانی میں ٹیکنوکریٹس شامل رہے حتی کہ ٹیکنوکریٹ صدور اور وزرائے اعظم بھی ملکی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔

پارلیمان میں سینیٹ یعنی ایوان بالا میں تو ٹیکنوکریٹس کی خصوصی نشست مخصوص کی گئی لیکن یہ الگ الگ بات ہے کہ اس نشست پر اس کے تقاضے کے برعکس  سیاسی جماعتیں اپنے امید وار نامزد کر دیتی ہیں۔

کچھ ماہر آئین کی یہ رائے ہے کہ مشیر اور معاون خصوصی کے عہدے اس تصور کے تحت رکھے گئے کہ ان پر ٹیکنوکریٹس مقرر کیے جاسکیں لیکن ان پر سیاسی وابستگی کو فوقیت دی جاتی ہے۔

سویلین یا سیاسی نوعیت کی حکومتوں میں تو کسی حد تک ٹیکنوکریٹ شامل ہوتے ہیں لیکن ملک میں فوجی اور نگران حکومتوں کا ایک بڑا حصہ تو ٹیکنوکریٹس پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔

جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ بنیں جس میں بعد میں سیاسی شخصیات بھی شامل ہوتیں۔

1954 سے لے کر اب تک ہر سیٹ اپ میں کہیں نہ کہیں ٹیکنوکریٹس کا عنصر کسی نہ کسی شکل میں نظر آتا رہا ہے۔ ملک کے گورنر جنرلز ہوں یا وزرائے اعظم ایسے نام آسانی سے مل جاتے ہیں جو ٹیکنوکریٹ تھے اور آئینی منصب پر فائز ہوئے۔

ملک کے تیسرے گورنر جنرل اور وزیراعظم دونوں ہی ٹیکنوکریٹ تھے۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد اور وزیر محمد علی بوگرہ ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ٹیکنوکریٹ ہوتے ہوئے ایک سیاسی سفر شروع کیا۔

ملک غلام محمد پاکستان کے بننے سے قبل ایک بیوروکریٹ اور پھر اپنے اقتصادی شعبہ تعلق کی وجہ سے لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ بننے اسی طرح  بنگالی محمد علی بوگرہ ایک سفارت کار سے وزیراعظم اور پھر دوبارہ سفارت کار بن گئے۔

وہ وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ میں سفیر تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ کو کہتے تھے پاکستان میں انہیں ’امریکہ کا بندہ‘ کہا جاتا ہے۔

محمد علی بوگرہ کی کابینہ کو کیبنٹ آف ٹیلنٹس بھی کہا گیا اور اسی کابینہ میں سکندر مرزا بھی وزیر دفاع رہے جن کو 1956 کے آئین کے تحت ملک کے پہلے صدر مملکت ہونے کا اعزاز ملا بلکہ وہ تیسرے اور آخری گورنر جنرل بھی رہے۔

1956 کے آئین کے خالق چوہدری محمد علی اور پہلے صدر مملکت سکندر مرزا کا تعلق بھی سیاست سے پہلے سروسز سے رہا۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے جب اقتدار حاصل کیا اور فوجی حکومت قائم ہوئی۔ پھر جو کابینہ وجود میں آئی اس میں جسٹس منظور قادر (سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) اور ماہر قانون ایس ایم ظفر جیسے ٹیکنوکریٹس سے شامل تھے۔

جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالنے بعد کابینہ ارکان کے لیے زیادہ حاضر سروس جنرلز کو ہی ترجیح دی لیکن ان کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے ٹیکنوکریٹس کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔

سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کابینہ کی میعاد بھی دو برس رہی۔ اس کابینہ کو خالصتا ٹیکنوکریٹ کا بینہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

فوجی حکمرانوں کی طرح سویلین حکومتوں میں ٹیکنوکریٹس کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جو خود وزیر خارجہ رہ چکے تھے اور وزیراعظم کی حیثیت سے وزارت خارجہ اپنے پاس رکھی، انہوں نے وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے لیے جنرل ایوب خان دور کے سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کو چنا۔

محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پھر عمران خان کی کابینہ میں ٹیکنوکریٹس مختلف وزارتوں پر رہے۔

ان ٹیکنوکریٹس میں محبوب الحق، سرتاج عزیز، صاحبزادہ یعقوب علی خان، وی اے جعفری، طارق فاطمی، ڈاکٹر فیصل، معید یوسف، ثانیہ نشتر اور تانیہ ایدرس کے نام نمایاں ہیں۔

ملک غلام محمد اور سکندر مزرا کے بعد غلام اسحاق خان سرکاری ملازمت سے ہوتے ہوئے صدر مملکت بنے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں صدر بنے اور نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

صدر مملکت غلام اسحاق خان، نواز شریف کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت مستعفی ہوئے جس کے بعد جو نگران حکومت بنی وہ مکمل طور پر ٹیکنوکریٹس پر مشتمل تھی یعنی وزیراعظم معین قریشی سے لے کر کابینہ کے ارکان تک لگ بھگ سب ہی ٹیکنوکریٹس تھے۔ ماضی کی نسبت اس نگران حکومت میں سیاست دان نہ ہونے کے برعکس تھے۔

1993 میں ایک ٹیکنوکریٹ وزیراعظم معین قریشی کی سربراہی میں نگران کابینہ کی تشکیل نے ٹیکنوکریٹ کابینہ کی قائم کرنے کی روایت ڈالی تھی۔

تین برس کے بعد جب صدر مملکت سردار فاروق خان لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اور اسمبلی کو تحلیل کیا تو جو نگران کابینہ بنائی گئی وہ 93 والی نگران کابینہ کو سامنے رکھتے ہوئے اسی نمونے پر بنی۔

البتہ اس میں یہ معمولی فرق رکھا گیا کہ نگران وزیراعظم کے منصب کے لیے کسی ٹیکنوکریٹ کی جگہ سینیئر ترین سیاست دان ملک معراج خالد کا انتخاب کیا گیا۔

صدر مملکت سردار فاروق لغاری اس تمام عرصے خود بہت متحرک رہے اور وہ خبروں میں بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس نگران حکومت کے قیام بارے میں یہ تاثر پھیل گیا کہ یہ کم از کم دو برس کے لیے قائم کی گئی ہے۔ پہلے احتساب اور پھر انتخاب ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دور میں آرڈیننس کے ذریعے نیشنل سکیورٹی کونسل اور احتساب کے لیے قانون یعنی احتساب آرڈیننس متعارف کرایا گیا لیکن انتخابات فروری کی اعلان کردہ تاریخ پر ہی ہوئے۔

جنرل پرویز مشرف نے شوکت عزیز کی حکومت اور اسمبلی کی میعاد مکمل ہونے پر بھی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت بنائی لیکن ملک تاریخ میں پہلی مرتبہ چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کو نگران وزیراعظم بنا دیا۔

اس سے پہلے چیئرمین سینیٹ آئینی طور پر قائم مقام صدر بن سکتے تھے۔ یہ تجربہ 1988 میں جنرل ضیا الحق کے تجربے سے بالکل مختلف تھا کیوں کہ اُس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاالحق نے جونیجو حکومت کو ہٹانے اور اسمبلی توڑنے کے بعد نگران کابینہ تو قائم کی لیکن نگران وزیراعظم کا عہدہ خالی چھوڑ دیا۔

نگران حکومت کے قیام کے لیے ملک ایک طرح کا رواج پڑ گیا ہے کہ نگران حکومت ٹیکنوکریٹس پر ہی مشتمل ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے 2013 میں سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس میر ہزار خان کھوسہ اور 2018 میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں نگران حکومتیں بنیں۔

کچھ حلقے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو ہی ملکی مسائل کے لیے امرت دھار سمجھتے ہیں۔

ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومت کی نظیر تو ہر نئے عام انتخابات کے ساتھ تقویت پکڑ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ آئین میں نگران حکومت کے لیے ٹیکنوکریٹس کے انتخاب کے لیے کوئی قدغن نہیں ہے۔

البتہ یہ رکاوٹ اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک نگران حکومت کی آئینی طور پر متعین میعاد کیسے بڑھائی جاسکتی ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست