محمد ہارون ایک کاروباری شخصیت ہیں اور وہ ٹیکسٹائل امپورٹ، مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔
ہارون ملکی معاشی نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ پچھلی حکومت کی غیر مستحکم پالیسیوں کی وجہ سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔
نگران حکومت کے قیام کے بعد بھی وہ پرامید نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے زیادہ جس وزرات کی طرف سب سے زیادہ امید بھری یا سوالیہ نظروں سے دیکھا جا رہا ہے وہ نگران وزرات خزانہ ہے۔
ہارون کے مطابق: ’جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ہر سیاسی اور غیر سیاسی حکمران نے ملک سے غربت ختم کرنے، مہنگائی کم کرنے اور روزگار بڑھانے کے وعدے کیے ہیں۔
’تمام سیاست ہمیشہ انہی دعوؤں کے گرد گھومتی ہے، لیکن 80 فیصد سے زیادہ حکومتیں ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں۔ اس مرتبہ دو معاشی ماہرین کی جوڑی کو ملکی معاشی سمت درست کرنے کے لیے اکٹھا کیا گیا ہے۔
’ڈاکٹر شمشاد اختر کو وزارت خزانہ اینڈ ریونیو، اکنامک افیئرز، شماریات اور نجکاری دی گئی ہیں اور ان کی مدد کرنے کے لیے ڈاکٹر وقار مسعود کو مشیر خزانہ بنایا گیا ہے۔‘
ہارون نے سوال کیا کہ ’کیا نئی معاشی ٹیم جانتی ہے کہ ان کے لیے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور کیا وہ ان چیلنجز پر قابو پا سکے گی یا نہیں۔ بینکس ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ ویلیو کے تقریباً 80 فیصد کم شرح سود پر قرض دیتے تھے۔ خبر آ رہی ہے کہ نگران حکومت اسے بھی ختم کر رہی ہے۔ اس سال برآمدات پچھلے سال کی نسبت گری ہیں۔ وہی پرانے چہرے ہیں جو ماضی میں حکومتوں میں رہے اور ملک کو معاشی نقصان پہنچایا۔ حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دن میرے کاروبار کے لیے مزید مشکلات لائیں گے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ’یہ روایت رہی ہے کہ نگران حکومت کے دور میں ڈالر ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ جانے والی حکومت آخری دنوں میں مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کرتی ہے اور سارا بوجھ نگران حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے۔
’نگران حکومت کے لیے کئی چیلنجز ہیں۔ اگر انہوں نے صرف ڈالر ریٹ ہی بڑھانے ہیں تو یہ کام کوئی کلرک بھی کر سکتا ہے۔ پھر اتنی بھاری تنخواہوں اور مراعات پر معاشی ٹیم رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ اصل کام سمگلنگ کو روکنا ہے۔’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ افغان ایران بارڈر پر سمگلنگ کو بڑھانا حکومتی پالیسی ہے۔
’وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے انٹر بینک کے ذریعے ڈالر کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ یہ اپروچ غلط ہے کیوں کہ اس پالیسی کی وجہ سے گرے مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کا فرق تقریباً 20 روپے تک بڑھ گیا ہے۔ ایکسپورٹ کا زیادہ ڈالر اس وقت گرے مارکیٹ میں آ رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے ڈالر گرے، مارکیٹ سے نکل کر ایکسچینج کمپنیز اور بینکس میں آئے۔ اس کے لیے ایکسچینج کمپنیز پر نومبر 2022 میں جو پابندیاں لگائی گئی تھیں انہیں ختم ہونا چاہیے۔
’500، 1000 ڈالرز خریدنے کے لیے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک سٹیٹمنٹ، بینک ڈپازٹ سلپ اور سورس آف اِنکم مانگنے سے کون ایسکچینج کمپنیز سے ڈالر خریدے گا۔ ایکسچینج کمپنیز کے پاس صرف 10 فیصد کام رہ گیا ہے۔ باقی سب گرے مارکیٹ میں چلا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کا فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
’یہ مطالبہ درست ہے لیکن ایک ارب ڈالر دے کر چار ارب ڈالر امپورٹ کی ادائیگی کرنے کا مطالبہ غیر حقیقی ہے۔ اگر پاکستان کے پاس اتنے ڈالر ہوتے تو آئی ایم ایف سے کیوں مانگتے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے وزرات خزانہ سے پہلی میٹنگ میں ہی ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’ڈاکٹر شمشاد اختر جب 2018 میں نگران وزیر خزانہ بنی تھیں اس وقت بھی روپے کی قدر میں تقریباً آٹھ فیصد تک کمی کی گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نئی ٹیم معاشی چیلنجز سے آگاہ ہے، لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔ روپے پر دباؤ برقرار رہ سکتا ہے اور عوام کو اس حوالے سے ریلیف ملنا مشکل ہے۔‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے کہا کہ نگران حکومت کو معاشی معاملات وہیں سے لے کر چلنے ہوں گے جہاں پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی ہے۔
’ان کا ایجنڈا آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو مکمل کرنا ہے۔ یہ خود سے کوئی نیا پلان نہیں بنا سکتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ غیر مستحکم ایکسچینج ریٹ نے کاروباروں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ نگران حکومت اگر کاروباری برادری کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو وہ آئی ایم ایف سے ایک ہی مرتبہ طے کر لے کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کیا ہونا چاہیے۔
’وہ 300 ہے یا 350۔ ایک مرتبہ فکس ہونے سے بزنس پالیسیز بنانے میں آسانی رہے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے مالی سال میں ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ ممکن ہے کہ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے ایک اور منی بجٹ سامنے لایا جائے۔
’دسمبر 2023 کے بعد قرضوں کی ادائیگی بھی بڑا ٹارگٹ ہے۔ تقریباً 15 ارب ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ڈالر کہاں سے آئیں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ نگران حکومت کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (خصوصی سرمایہ کاری سہولیاتی کونسل) کے اہداف حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت اس حوالے سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔‘
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید کا کہنا ہت کہ ’آئی ایم ایف کی ٹیم نومبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔ پی ڈی ایم حکومت نے جو وعدے کیے ہیں، نگران حکومت اس پر کتنا عمل درآمد کرتی ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا۔
’بجٹ خسارہ بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف تقریباً ساڑھے چار کھرب روپے تھا، جو بڑھ کر تقریباً پونے سات کھرب ہو چکا ہے۔
’نگران معاشی ٹیم اس پر کس طرح قابو ہائے گی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے مالی سال کے اختتام پر وفاقی حکومتی اخراجات بجٹ سے تقریباً 18 فیصد زیادہ ہیں۔
’آئی ایم ایف نے حکومت اخراجات کم کرنے کی شرط عائد کر رکھی ہے۔ نگران حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا۔‘
ان کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے مطابق رکھنا اور سبسڈی نہ دینا معاہدے کا حصہ ہے۔
’اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 400 روپے فی لیٹر تک بڑھ سکتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
’ڈالر ریٹ بڑھنے سے پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی ہیں، پیٹرولیم کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور بجلی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے باعث شرح سود بڑھ جاتی ہے اور ممکنہ طور پر نگران حکومت کو شرح سود بڑھانی پڑ سکتی ہے۔‘