رائل سپینش فٹ بال فیڈریشن کے صدر لوئس روبیالس کی طرف سے سپین میں ورلڈ کپ کی تقریبات کے دوران فٹ بال کی کھلاڑی جینی ہرموسو کے ہونٹوں کا بوسہ لینے سے بھی قبل سٹیڈیم میں موجود دیگر حکام ان کے رویے پر اس قدر حیران ہوئے کہ انہوں نے ویڈیوز بھیجنی شروع کر دیں۔
دی انڈپینڈنٹ کو خفیہ طور پر بھیجی گئی ایک ویڈیو میں ہسپانوی فٹ بال فیڈریشن کے صدر کو فتح یابی کے طور پر اپنے جسم کا مخصوص حصہ ہاتھ میں لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا اشارہ جس کا تعلق قدیم روم کے ساتھ ہے جس سے عام طور پر ’میں آدمی ہوں۔‘ مراد ہے۔
یہ یقینی طور پر ایک جارحانہ مردانہ اشارہ ہے جو خواتین کے فٹ بال ٹورنامنٹ کے لیے قطعاً موزوں نہیں ہے جس میں ہر کوئی مساوی سلوک کا حق دار ہوتا ہے۔ ان کا یہ عمل سپین میں جاری بحثوں میں ایک کو مزید ہوا دینا کا سبب بنا ہے کہ روبیالس کو نہیں معلوم کہ انہیں کس طرح کے موقعے پر کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس طرح فیڈریشن کے معاملات کو دیکھنے کے معاملے میں ان کے موزوں شخص ہونے کے حوالے سے مزید سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سپین کی ملکہ اور ان کی 16 سالہ بیٹی ان کے قریب موجودگی نے معاملے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
اب بھی یہ احساس موجود ہے کہ روبیالس کو واقعی معلوم نہیں کہ انہوں نے ہرموسو کا بوسہ لے کر کیا غلط کیا۔ اپنے عمل پر جس انداز میں انہوں نے معافی مانگی اگر اس سے صورت حال واضح نہیں ہوتی تو معافی مانگنے سے ان کی جانب کی گئیں بہت سے باتیں موجود ہیں جو صورت کو واضح کرتی ہیں۔
روبیالس نے ان کے 'سرعام محبت کے اظہار' پر اعتراض کرنے والوں کو ’احمق، بے وقوف، کم عقل‘ اور ’ناکام‘ قرار دیتے ہوئے انہیں فضول لوگ کہنے پر تان توڑی۔ اس کے بعد ان کی معافی کا مطلب یہ تھا کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔
ایسا بہت سے لوگوں سے لوگ موجود ہیں جو ہسپانوی فٹ بال تنظیم عہدے دار کی ایسے تنازعے میں مذمت کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں جو ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
سپین کے وزیر ثقافت اور کھیل میکل ایسیتا نے اسے 'ناقابل قبول' قرار دیا ہے۔ سپین کی دوسری نائب وزیر اعظم یولیندا دیاز نے کہا ہے کہ روبیالس کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ 'ایک خاتون کو ہراساں کیا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔' مساوات کی وزیر آئرین مونتیرو نے آگے بڑھ کر اسے 'جنسی تشدد کی ایک شکل' قرار دیا۔
اس طرح کے الفاظ ہسپانوی فٹ بال میں کچھ لوگوں کے اس نقطہ نظر کو تبدیل کرنے لگے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں ہوگا۔
صورت حال اب دباؤ بڑھانے سے آگے چلی گئی ہے۔ اگرچہ یہ بوسہ اپنے طور پر اس طرح کے تنازعے کے لیے کافی ہے لیکن یہ ایک وسیع تناظر میں سامنے آیا ہے جو کھلاڑیوں کی شکایتوں کے باوجود روبیالس کی مینیجر جارج ولڈا کی حمایت سے آگے نکل گیا ہے۔ ان شکایات میں میں 2019 تک بین الاقوامی دوروں کے دوران اپنے ہوٹل کے کمروں کے دروازے بند کرنے کی اجازت نہ دینا بھی شامل ہے۔
ہسپانوی فٹ بال کے ذرائع ’شرمندگی‘ اور ’شرمناک ‘ جیسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ اس طرح کے لوگ ہمارے کھیل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دریں اثنا اخبار ایل پائس نے اداریہ شائع کیا جس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کس طرح سپین کی خواتین فٹ بالرز جن کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی تھی، کے لیے فخر کا موقع کس طرح ایک شخص کے رویے سے متاثر ہوا۔
روبیالس اس سے قبل بھی اس کھیل اسی طرح کے تنازعات کا سبب بن چکے ہیں کہ کھیل کی دوسری اہم شخصیات ان خبروں کو میسیجنگ ایپلی کیشن وٹس ایپ کے ذریعے نجی سطح پر شیئر کرنے کے بالکل تیار تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے ایک خبر یہ تھی کہ ’روبیالس کی کابینہ کے سابق باس کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارٹیوں کے اہتمام کے لیے فیڈریشن کے پیسے سے ادائیگی کی۔‘ ایسا مبینہ طور پر نجی سطح تقاریب کے اہتمام کے معاملے میں کیا گیا۔ روبیلس اس سے انکار کرتے ہیں۔
ایک اور سٹوری میں بتایا گیا کہ ’لوئس روبیالس کو اپنے گھر کی تزئین و آرائش کرنے والے آرکیٹیکٹ پر حملے کے الزام سے بری کر دیا گیا ہے۔‘ ایک معاملے میں ان پر کھلاڑیوں کی اس یونین کے پیسے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس کے وہ صدر تھے۔ ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے یونین کے پیسے مکان کی تزئین و آرائش کروائی۔
اس کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ ’روبیالس نے سپر کب سعودی عرب منتقل کرنے کے لیے فٹ بالر (جیراد) پیکے کے ساتھ سودے بازی کی جس کے تحت پیکے کو دو کروڑ 40 لاکھ یورو ملنے تھے۔‘ لیکن سابق ہسپانوی فٹ بالر کے ساتھ متازع ڈیل سے متعلق خفیہ معلومات افشا ہونے کے بعد بعض لوگوں نے روبیالس سے کہا کہ ’آپ کے پاس چھ کلو بچے ہیں۔‘ یعنی کھیل بگڑ چکا ہے۔
تاہم اتنا کچھ ہونے سے قبل وہ شاید سپین سے باہر 2018 کے ورلڈ کپ سے دو دن قبل مردوں کی ٹیم کے مینیجر جولین لوپیتیگی کو برطرف کرنے کے دھماکہ خیز فیصلے کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور تھے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے ہسپانوی ٹیم کو آخری 16 ویں راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ یہ ان تاریخی چالاکیوں میں سے ایک ہے کہ موجودہ صورت حال ماضی سے تقریباً الٹی ہے یعنی روبیالس ویلدا کے ساتھ کھڑے ہیں۔
لوپیتیگی کے معاملے میں روبیالس نے محسوس کیا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کیوں کہ مینیجر نے انہیں بتائے بغیر ورلڈ کپ کے بعد ریال میڈرڈ کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کرکے فیڈریشن کی بے عزتی کی۔ ویلدا کے معاملے میں روبیالس نے محسوس کیا کہ سپین کی باغی کھلاڑیوں، جن میں سے کچھ نے خواتین کے ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کیا تھا، نے مینیجر اور فیڈریشن دونوں کی بے عزتی کی ہے لہٰذا انہوں نے مینیجر کی بھرپور حمایت کی۔
بار بار نشاندہی کی گئی کہ ان کے اور ویدڈا کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں اور ویلدا کے والد جارج فی الحال رائل سپینش فٹ بال فیڈریشن (آر ایف ای ایف) کے خواتین فٹ بال ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔
کسی بھی صورت میں سمجھوتے پر کبھی زیادہ غور نہیں کیا گیا حالاں کہ جارج نے خواتین کی ٹیم کی تیاری کے معیار اور سہولیات میں زبردستی تبدیلیاں کیں۔ کچھ فاتح کھلاڑی ناراض ہیں اور انہیں پوچھنا بھی پڑا۔ بیلن ڈی اور کی فاتح الیکسیا پوتیلاس نے فتح کے موقعے پر قابل ذکر تبصرہ کیا۔
’آپ نے دیکھا کہ جب خواتین فٹ بالرز کو اپنے آپ پر تھوڑا سا بھروسہ ہوتا ہے اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کر دی جاتی ہیں تو سب کچھ بہتر ہو جاتا ہے۔‘
روبیالس کے دفاع کرنے والے جو چند ہی لوگ ہیں، یہ کہیں کہ صورت حال بہتر ہوئی ہے۔
جون 2018 میں جب لوپیتیگی کا معاملہ پیش آیا تو وہ انہیں اس عہدے پر آئے ایک ماہ سے بھی کم وقت ہوا تھا اور انہیں اپنے پیشرو اینجل ماریا ولار کے مقابلے میں اہم بہتری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جنہیں گذشتہ جولائی میں ملی بھگت، غبن اور دستاویزت میں جعل سازی کے الزامات پر حراست میں لیے جانے کے بعد صدر کے عہدے سے معطل کر دیا گیا تھا۔
لوپیتیگی کو برطرف کرنے کے بارے میں روبیالس نے کہا: ’یہ نئی فیڈریشن کی اقدار ہیں اور جو بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا اسے اس کا عادی ہونا پڑے گا۔‘
روبیالس کو ہسپانوی فٹ بالرز کی ایسوسی ایشن کے ساتھ اہم کام کرنے کے بعد اپنی موجودہ ملازمت ملی۔ وہ ان ٹیموں کی قیادت کرنے میں اچھے تھے جو دیوالیہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے چھوٹے کلبوں کا انتظام سنبھالا۔ اس سارے عمل کے دوران وہ خود ایک کھلاڑی ہی تھے۔ ان حالات میں ان کے تجربے کو بہت اہمیت دی گئی۔
مدد کے لیے ایسی ہی ایک کال دراصل ان کے آخری کلب میں آئی تھی، جو سکاٹش ٹیم ہیملٹن اکیڈمک تھی۔ سکاٹ لینڈ میں اپنے چوتھے اور آخری میچ میں انہوں نے رینجرز کے ہاتھوں 4-1 سے شکست کے بعد جو آخری بات سنی وہ یہ نعرہ تھا: ’بالڈی بدمعاش، سکور کیا ہے؟‘
ایک دفاعی کھلاڑی، روبیالز کو ہسپانوی کھلاڑیوں کی جیسی تکنیکی مہارت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا، لیکن ان کی ثابت قدمی کے لیے ان کا احترام کیا جاتا تھا۔
وہ اس سیزن میں ہیملٹن میں تھے جس کے اختتام پر سپین نے جنوبی افریقہ میں مردوں کا عالمی کپ جیت لیا تھا، جس نے خواتین کی کامیابی پر کسی بھی طرح کے وسیع تر اثر کو کم کردیا تھا۔ یہ صدی کے آغاز کے آس پاس سپین کا کوچنگ انقلاب تھا جس کی وجہ سے سپین کے دونوں کا عالمی چیمپیئن ابھرا، اور جب یہ ہو رہا تھا تو روبیلس گوڈیکس اور لیلیڈا جیسے کلبوں میں تھے۔
اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ انہیں کئی طریقوں سے ایک جدت پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے ایک ایسی فیڈریشن کے لیے جس کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ یہ روبیالز کے دور میں ہوا کہ ساکھ اور سلامتی کا ایک محکمہ تشکیل دیا گیا۔ اور ’روبی‘ کا، جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ فیڈریشن کا عملہ انہیں بلاتا ہے، ایک اہم اقدام بھی ان کے اثر کی وجہ سے ممکن ہوا تھا جس سے ممکنہ طور پر سپین میں 2030 ورلڈ کپ لانے میں مدد ہوئی۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ سعودی عرب اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ بولی جیت جائے گا، لیکن مراکش اور پرتگال کو سپین کے ساتھ ملانے نے افریقی ووٹوں کو تقسیم کردیا اور بنیادی طور پر سعودی ریاست کو اس عمل سے باہر کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس دوران جو لوگ روبیالز کے ساتھ یوئیفا کی سطح پر کام کر چکے ہیں وہ انہیں ’پرعزم‘ اور ’قابل‘ قرار دیتے ہیں، لیکن ’بڑی انا‘ کے ساتھ، جو بہت زیادہ غصہ کا سبب بنتا ہے۔ وہ پہلے ہی پلیئرز یونین اور لالیگا کے صدر جیویئر ٹیباس سے الگ ہو چکے ہیں۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بصورت دیگر، فیڈریشن کی سطح پر تصور کردہ جدیدیت اب پچھلے کچھ دنوں کے رجعت پسندانہ رویے کے برعکس ہے۔
ایل پیس اخبار نے اس بوسے کو ’بینی ہل کی طرف سے ایک برے لطیفے کی طرح‘ قرار دیا۔ بدقسمتی سے، یہ معاملہ زیادہ سے زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
روبیالز کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پیر کی فتح پریڈ میں یقینی طور پر اسے محسوس کر رہا ہو۔ وہاں ان کے رویے کی کوئی ویڈیو نہیں تھی کیونکہ وہ بہت محتاط تھے اور سٹیج پر نظر نہیں آئے تھے۔
ایک ماخذ کے الفاظ میں اب وقت آگیا ہے۔
© The Independent