برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے سربراہ ٹم ڈیوی نے بڑھتے ہوئے مطالبات کے باوجود اپنے اس اینکر کا نام ظاہر نہ کرنے کا دفاع کیا ہے جن پر ایک کم عمر شخص کو عریاں تصاویر کے بدلے پیسے دینے کا الزام ہے۔
برطانوی میڈیا میں مسلسل پانچویں روز بھی ان الزامات کو اپنے صفحہ اول پر سرخیوں میں جگی دی جب کہ عوامی مالی اعانت سے چلنے والے ادارے بی بی سی نے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں میں پیش کیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ملزم کی شناخت کے بارے میں قیاس آرائیوں کا طوفان امڈ آیا ہے۔ ڈیلی میل نے یہاں تک رپورٹ کیا کہ ان کے سنیپ پول کے مطابق ’ہر چھ میں سے ایک برطانوی جانتا ہے کہ ملزم کون ہے۔‘
تاہم ڈیوی نے کہا کہ جب الزامات لگائے گئے تھے تو ’قانونی عمل اور پروٹوکول‘ پر عمل درآمد کیا گیا اور یہ ان کا فرض تھا کہ اس معاملے میں ملوث تمام لوگوں کے قانونی حق کا دفاع کیا جائے۔
انہوں نے منگل کو صحافیوں کو بتایا: ’ہم ہمیشہ ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور احتیاط کے ساتھ ان سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کارپوریشن کو اس معاملے کو ’انتہائی مستعدی کے ساتھ ان کو سنبھالنے کی ضرورت تھی۔‘
تاہم انہوں نے ہاؤس آف کامنز میں میزبان کا نام دینے کے لیے پارلیمانی استحقاق کے تحت کچھ اراکین پارلیمنٹ کے مطالبات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
برطانیہ میں پارلیمانی استحقاق قانون سازوں کو چیمبر میں دیے گئے بیانات کے لیے قانونی استثنیٰ کی اجازت دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ولنیئس میں نیٹو رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کے لیے موجود وزیر اعظم رشی سونک نے ان الزامات کو ’سنگین اور تشویش ناک‘ قرار دیا تاہم یہ بھی کہا کہ یہ بی بی سی کا داخلی معاملہ ہے۔
یہ الزمات سب سے پہلے جمعے کو اخبار ’دا سن‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سامنے آئے جس میں مبینہ طور پر متاثرہ نوجوان کے اہل خانہ نے کہا کہ بی بی سی کے میزبان نے (عریاں) تصویروں کے لیے کل 35 ہزار پاؤنڈ ادا کیے تھے۔
دا سن نے کہا کہ بی بی سی اور نوجوان کے درمیان یہ معاملہ تین سال قبل اس وقت شروع ہوا جب نوجوان کی عمر محض 17 سال تھی۔
حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے سکینڈلز نے بی بی سی کی ساکھ ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں ان کے کچھ بڑے نام جنسی مجرموں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
دا سن نے ایک اداریے میں کہا: ’بی بی سی کا اپنے ’ٹیلنٹ‘ (سکرین پر آنے والا عملہ) کے بارے میں شکایات کو نظر انداز کرنے کا شرم ناک ریکارڈ ہے۔‘
میڈیا انڈسٹری کے نگران ادارے پریس گزٹ نے اس دعوے اور جوابی دعوے کو ’برطانیہ کے دو سرکردہ نیوز پبلشرز کے درمیان جنگ‘ قرار دیا ہے۔
ادارے نے مزید کہا کہ ’اس واقعے کا نتیجہ اب صرف ’نیوز یو کے‘ کی ملکیتی ادارے دا سن یا بی بی سی کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔‘
ان انکشافات نے برطانیہ کے پیچیدہ اور سخت رازداری کے قوانین پر روشنی ڈالی ہے جس نے میڈیا کو کسی ملزم کی باضابطہ طور پر تفتیش یا گرفتاری سے قبل شناخت ظاہر کرنے کے بارے میں زیادہ محتاط کر دیا ہے۔
2018 میں بی بی سی کو گلوکار کلف رچرڈ کے گھر پر 2014 کے پولیس چھاپے کی براہ راست فوٹیج نشر کرنے کے بعد ان کی رازداری کی خلاف ورزی پر بھاری ہرجانے کی سزائیں دی گئی تھیں۔
اس سے قبل 2016 میں بریگزٹ ریفرینڈم کے بعد سے حکمران کنزرویٹو کے ارکان اور ان کے حامیوں کی جانب سے بی بی سی پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔