حکومت نے انسانی جان بچانے والی متعدد ادویات سمیت 25 دواؤں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں، جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ان دواؤں میں بلڈ پریشر اور خون کی شریانیں کھولنے والی گولیوں، مختلف بیماریوں کے انجیکشن، گولیاں، انہیلر اور سیرپ وغیرہ شامل ہیں۔
ڈریپ کے نوٹیفکیشن کے مطابق کینسر کے علاج کی نئی رجسٹرڈ دوا لوریکا کی قیمت آٹھ لاکھ 46 ہزار 857 روپے، دمے کے مریضوں کے استعمال کے لیے انہیلر کی قیمت 1390 روپے اور ہیپاٹائٹس کے انجیکشن کی قمیت 10 ہزار 275 روپے کر دی گئی ہے جبکہ پیراسٹامول اور ڈیپ ہائیڈرالین کی 20 گولیوں کی نئی قیمت 192 روپے، ملیریا میں استعمال ہونے والی کلوروکوین کی قیمت ایک ہزار سات روپے مقرر کی گئی ہے۔
اسی طرح کینسر کے مریضوں کے انجیکشن بورٹیزومب کی قیمت 17 ہزار 513 روپے اور انفیکشن میں استعمال ہونے والی دوا زیربیکسا کی قیمت 15 ہزار 356 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔
لاہور کے علاقے رحمٰن پورہ کی رہائشی ثمینہ نعیم کینسر کی مریضہ ہیں اور انہیں کیمو تھراپی کے بعد ایک مخصوص انجکشن ہر ماہ لگوانا لازمی ہے، لیکن قیمتوں میں اضافے کے باعث وہ شدید پریشان ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں ایک سال سے کینسر کی مریض ہوں اور لاہور کے انمول ہسپتال میں میرا علاج چل رہا ہے۔ دو بچے ہیں اور خاوند فوت ہو چکے ہیں، میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گزارا کرتی ہوں۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے تو اپنی دوا اور وہ بھی مہنگی کیسے خریدوں؟‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے خاوند کی وفات کے بعد ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو انمول ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان کا علاج شروع کیا۔ انہیں ہر ماہ کیمو تھراپی کروانا ہوتی ہے، جس کے بعد ایک انجکشن لگایا جاتا ہے۔
بقول ثمینہ: ’انجیکشن شروع میں چار ہزار روپے کا تھا، پھر چھ ہزار روپے کا ہوا، مگر اب اس کی قیمت 10 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔‘
دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ؟
یہ سوال جب پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین منصور دلاور سے کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں بننے والی دواؤں کے لیے خام مال انڈیا اور چین سمیت دیگر ممالک سے آتا ہے، جس کی خریداری ڈالرز میں کرنی پڑتی ہے۔ ہماری معیشت کی صورت حال اور ڈالرز کی قلت کے باعث ہمیں خام مال مہنگا خریدنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے دوائیوں کی قیمت پر اثر پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ڈریپ حکومت کی منظوری سے ایسی دواؤں کی قیمتیں بڑھاتا ہے جس کی ہم درخواست کریں کہ ہمیں یہ دوا تیار کرنے میں لاگت زیادہ ہو گئی ہے لہٰذا قیمت میں اضافے کی اجازت دی جائے۔ پھر ڈریپ کی ٹیم اس بارے میں چھان بین کرتی ہے کہ کیا واقعی دواؤں کی پیداواری قیمت بڑھی ہے یا نہیں اور اس کے بعد وہ نئی قیمتوں کا تعین کر کے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں۔‘
منصور دلاور کے مطابق: ’جب پیداواری لاگت بڑھتی ہے تو کوئی کمپنی نقصان میں دوائیں تیار نہیں کرتی، جس سے مارکیٹ میں دواؤں کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
’ہمیں ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے اور ڈالرز کی کمی کے باعث ایل سی کھلوانے میں درپیش ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے دواؤں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اسے روکنا فی الحال مشکل ہے کیونکہ ڈالر ریٹ ہم سے کنٹرول نہیں ہو رہا اور کمی کا بھی سامنا ہے۔ دواؤں کی ہماری مقامی پیداوار 90 فیصد ہے اور ہم خام مال 95 فیصد درآمد کرتے ہیں۔‘
اس حوالے سے ڈرگ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما امین خالد نے بتایا کہ ’پاکستان میں صرف ایسی دوائیں ہی نہیں جن کی تیاری کے لیے خام مال دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے بلکہ ان دوائیوں کے ریٹ بھی زیادہ ہیں، جن کا خام مال مقامی طور پر حاصل ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’گلوکوز سمیت کئی اشیا ایسی ہیں جن کا خام مال بھی پاکستان سے ملتا ہے لیکن ان کی قیمت بھی زیادہ ہی ہے۔ کئی غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں یہاں ادویات تیار کرتی ہیں مگر ریٹ وہ بھی ڈالر کے حساب سے ہی رکھتی ہیں۔‘
بار بار قیمت بڑھنے سے مارکیٹ پر کیا اثر پڑتا ہے؟
ڈرگ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اسحاق میو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جب سے معاشی بحران آیا ہے، ایک ڈیڑھ سال میں ادویات کی قیمتیں چھ سے سات بار بڑھ چکی ہیں اور ان میں 18 سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دویات ساز کمپنیاں منافع بڑھانے کے لیے اکثر دواؤں کی قلت پیدا کر کے رکھتی ہیں تاکہ حکومت ان سے بلیک میل ہو کر قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’ایسی ادویات جن کے لیے خام مال بیرون ملک سے آتا ہے ان کے علاوہ مقامی سطح سے خام مال لے کر تیار ہونے والی دوائیوں کے ریٹ بھی مرضی سے طے کیے جاتے ہیں۔
’بلوچستان میں کئی ادویات ساز غیر ملکی کمپنیاں یہیں سے جڑی بوٹیاں حاصل کر کے دوائی بناتی ہیں لیکن تیار کرکے بیرون ملک اپنے دفاتر بھجوا کر بار کوڈ لگاتی ہیں۔ ان ادویات کا ریٹ بھی غیر ملکی ادویات کے برابر رکھا جاتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کمپنیوں کی بلیک میلنگ ختم کرکے مخصوص مدت کے لیے قیمتوں کا فارمولہ طے کریں تاکہ مارکیٹ میں بھی استحکام پیدا ہو اور شہریوں کو بھی ادویات سستی ملیں۔‘
اسحاق میو کے بقول: ’جب بھی ادویات کی خریداری کرتے ہیں، اس کی خریداری کے وقت ریٹ کم ہوتا ہے لیکن جب انوائس آتی ہے تو اکثر ہی قیمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، لہذا ہم مال اس وقت تک پوری طرح مارکیٹ میں سٹورز پر سپلائی کرنے سے گریز کرتے ہیں جب تک انوائس نہ مل جائے تاکہ ہم بھی اس کے مطابق ریٹ طے کریں۔‘
خیال رہے کہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کے نگران وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم کی اہلیہ کی ملکیت کمپنی کی تیار کردہ دوائیوں کی ایک کھیپ کو بدھ (23 اگست) کو غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ قرار دیتے ہوئے اسے مارکیٹ سے واپس منگوانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور قرار دیا ہے کہ یہ لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
جس کے جواب میں کمپنی کی مالک شہلا جاوید نے اپنے بیان میں کہا کہ ’محکمہ صحت کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو ادویات پکڑی گئیں، ان میں پیراسیٹامول دوا کے نمونے موجود تھے جو بذات خود ایک محفوظ دوا تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی کمپنی نے مریضوں کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے ہی دوا کے اس بیچ کو مارکیٹ سے رضاکارانہ طور پر واپس بلانے کی ہدایات جاری کر دی تھیں۔‘