پاکستان میں امریکی ڈالر کے بحران کے باعث تاجر برادری کو سامان کی برآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھلوانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لیٹر آف کریڈٹ (جسے ڈاکومنٹری کریڈٹ یا بینکرز کمرشل کریڈٹ، یا لیٹر آف انڈر ٹیکنگ بھی کہا جاتا ہے) بین الاقوامی تجارت میں استعمال ہونے والا ادائیگی کا ایک طریقہ کار ہے جس میں ایک قابل اعتبار بینک سے سامان کے برآمد کنندہ کو اقتصادی ضمانت فراہم کی جاتی ہے۔
ادویات بنانے والے پاکستانی کارخانہ داروں کے مطابق بینکوں میں ڈالر بحران کی وجہ سے ادویات میں استعمال ہونے والا خام مال اور میڈیکل ڈیوائسز بیرون ملک سے منگوانا مشکل ہو چکا ہے، جبکہ سٹاک بھی چند دن کا باقی رہ گیا ہے اور اگر یہ معاملہ فوری حل نہ ہو سکا تو ملک میں ادویات کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب محکمہ صحت ادویات کی قلت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے پر توجہ دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔
تاہم ادویات کی قیمتوں اور درآمد میں مشکلات کے باعث بعض ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر چکی ہیں۔
فارماسوٹیکل مینوفیکچررز کے مطابق اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو مقامی کمپنیوں کا کام کرنا بھی دشوار ہو جائے گا، اس لیے وفاقی وزارت خزانہ کو اس معاملے کے حل پر توجہ دینا چاہیے۔
میڈیکل سٹورز مالکان بھی ادوایات کی ممکنہ قلت سے پریشان ہیں، جس سے ان کا کاروبار متاثر اور مریضوں کو مسائل کا سامنا ہو گا۔
درآمد میں مشکلات
پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین منصور دلاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’گذشتہ چند ماہ سے جاری ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے غیر یقینی پیدا ہوئی ہے، اور بیشتر بینکوں نے ایل سی کھولنا بند کر دیا ہے۔‘
کیونکہ پاکستان میں تیار کردہ ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا 95 فیصد درآمد کیا جاتا ہے، جبکہ میڈیکل ڈیوائسز جن میں ڈرپ کے ساتھ لگنے والی کٹ سے لے کر دل میں ڈلنے والے والو اور سٹینٹ بھی بیرون ملک سے حاصل کیے جاتے ہیں۔‘
منصور دلاور کے بقول تمام مینوفیکچررز بیرون ملک سے خام مال اور میڈیکل ڈیوائسز منگوا کر یہاں ادویات تیار کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے بینکوں میں ایل سی کھلوانا پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’ڈالر کی کمی کا عذر پیش کر کے بیشتر پاکستانی بینک ایل سی نہیں کھول رہے، خصوصا میڈیکل ڈیوائسز کے لیے تو بالکل بھی نہیں، جبکہ ایک لاکھ ڈالر تک کی ایل سی تو بالکل نہیں کھولی جا رہی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملہ پر وزارت خزانہ اور وزارت صحت کو بھی آگاہ کیا گیا مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، جس کے باعث مینوفیکچررز کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔
منصور دلاور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فارما مینوفیکچررز کے پاس عام طور پر خام مال اور ڈیوائسز کا سٹاک ایک سے ڈیڑھ ماہ کے لیے ہوتا ہے، اور اب اس مسئلے کلے باعث بیشتر کارخانوں میں محض چند روز کا خام مال رہ گیا ہے۔
’فارما کے کارخانہ دار ایک دوسرے کو بھی خام مال نہیں دے رہے، جبکہ بیرون ملک سے منگوانا مشکل ہو چکا ہے۔‘
منصور دلاور کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں پرائسنگ کے معاملے میں تاخیر کے باعث کئی غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان میں کام بند کر دیا، جبکہ اب ڈالر کی کمی کی وجہ سے مزید کئی اداروں کے لیے بھی کام جاری رکھنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
حکومتی موقف
ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اسحاق میو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پرائسنگ کے معاملے کمپنیوں کی بندش کے بعد سے پاکستان میں 100 سے زیادہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں، اور صارف متبادل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب درآمد کے مسائل کے باعث آنے والے دنوں میں مزید دوائیوں کی دستیابی مشکل ہوسکتی ہے۔‘
اسحاق میو کے بقول حکومت کو اس معاملے کا حل نکالنے کی خاطر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کیونکہ فارما مینوفیکچررز کے متاثر ہونے سے تنگ عوام ہی نے ہونا ہے۔
دوسری جانب ترجمان وفاقی وزارت صحت ساجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس معاملہ پر موقف دیتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے یہ مسئلہ سنجیدہ ضرور ہے۔
انہوں نے کہا کہ فارما مینوفیکچررز سے اس سلسلے میں بات چیت کر کے اسے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے جلد ہی نتائج نکل آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی وزارت خزانہ بینکوں کو ہدایت کرائی جا رہی ہیں کہ ایل سی کھوالنے میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
ساجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ تمام فارما مینوفیکچررز ایک سے دو ماہ کا سٹاک رکھنے کے پابند ہوتے ہیں، اس لیے چند روز میں ادویات کی قلت کھڑی ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔
’آئندہ چند روز میں یہ معاملہ حل کر دیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت صحت اس معاملہ پر متعلقہ حکام سے رابطے میں ہے جبکہ مارکیٹ کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔