انسانی حقوق کے کارکن، سیاستدان، ادیب اور بائیں بازو کی سیاست کے دانشور بیاتھل محی الدین کُٹی المعروف بی ایم کُٹی 89 برس کی عمر میں اتوار کی صبح تین بجے کراچی میں انتقال کرگئے۔
بی ایم کُٹی قیامِ پاکستان کے بعد بھارتی ریاست کیرالہ سے 19 سال کی عمر میں اپنے خاندان کو چھوڑ کر پاکستان آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
بی ایم کُٹی دو جوہری ریاستوں پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے لیے ایک مضبوط آواز سمجھے جاتے تھے۔ وہ دونوں ممالک میں قیام امن کے خواہشمند تھے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے درمیاں نام نہاد دشمنی دونوں ممالک کے لوگوں کے آپس میں ملنے سے کم ہوسکتی ہے۔‘ ان کے بقول بھارت میں بننے والی اشیا پاکستان میں دبئی سے ہو کر آتی ہیں۔ اگر دونوں میں دشمنی ختم ہوجائے تو یہ ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کرسکتے ہیں۔
وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے قیام کے لیے بنائے گئے پاکستان پیس کولیشن کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔
بی ایم کُٹی 15 جولائی 1930 کو بھارتی ریاست کیرالہ، جو اُس وقت کے برطانوی راج میں مدراس پریزیڈینسی کا حصہ تھی، کے شہر ترور میں پیدا ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کا تعلق ملایالی مسلمان کسان خاندان سے تھا۔
تقسیمِ ہند کے بعد 1949 میں وہ 19 سال کی عمر میں اپنے آبائی شہر سے ممبئی گئے، جہاں سے وہ بذریعہ ٹرین کھوکھراپار - موناباؤ کے راستے کراچی آگئے۔
انہوں نے 1951 میں یو پی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی برجیس صدیقی سے شادی کی جن کا انتقال 2010 میں ہوا۔
بی ایم کُٹی نے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا۔ وہ آخری وقت تک اپنے بیٹے جاوید محی الدین کُٹی کے ساتھ کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک 6 میں رہائش پذیر رہے۔
وہ اپنے آپ کو ملایالی دل رکھنے والے پاکستانی کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔ ان کی سیاسی زندگی چھ دہائیوں پر محیط ہے۔
وہ 1950 سے 1957 تک لاہور میں آزاد پاکستان پارٹی اور کراچی میں پاکستان عوامی لیگ سے منسلک رہے جبکہ 1957 سے 1975 تک وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے منسلک رہے۔ نیپ مارش لا مخالف پارٹی سمجھی جاتی تھی۔ بعد میں 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی رکھا گیا اور بی ایم کُٹی چار سال مزید اس جماعت کا حصہ رہے۔
ضیاالحق کی فوجی حکومت کے خلاف جب ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو بی ایم کُٹی تین سال تک ایم آر ڈی کے جوائنٹ سیکریٹری جنرل رہے۔ اس دوران تحریر پر عبور رکھنے کی وجہ سے ایم آر ڈی کی قراردادیں لکھنے کی ذمہ داری ان پر تھی۔
انہوں نے اپنی سیاسی سوانح عمری ’سکسٹی ایئرز آف سیلف ایگزائل، نو ریگریٹ‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ انہوں نے کیوں کیرالہ چھوڑ کر پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
اس کے علاوہ انہوں نے معروف بلوچ سیاستدان میر غوث بخش بزنجو کی سوانح عمری ’اِن سرچ آف سولیوشن‘ کی ادارت بھی کی۔ 1972 میں جب میر غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان بنے تو بی ایم کُٹی ان کے پولیٹیکل سیکریٹری بھی رہے۔
ان کی وفات پر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’انہوں نے بی ایم کُٹی جیسا بہترین سیاستدان نہیں دیکھا۔‘
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور نے کہا کہ ’بی ایم کُٹی سرحدوں سے بالاتر تھے۔ وہ خطے میں قیام امن کی ایک مضبوط آواز تھے۔ ان کی وفات سے اس خطے میں امن کے قیام کو شدید دھچکا لگا ہے۔‘