پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے نے دریائے ستلج پر جی ایس والا، سلمانکی اور اسلام کے نشیبی علاقوں کی آبادی کو بروقت پیشگی انتباہ اور خطرے سے دوچار افراد کے انخلا کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
پی ٹی ایم اے نے بدھ کو پنجاب میں سیلاب کے حوالے سے اپنے تازہ بیان میں بتایا ہے کہ جن اضلاع کو خطرہ ہے ان میں قصور، اوکاڑہ، بہاولنگر، پاکپتن اور وہاڑی شامل ہیں۔
بیان میں مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ نشیبی علاقوں کی آبادی کو بروقت پیشگی انتباہ اور خطرے سے دوچار افراد کے انخلا کو یقینی بنایا جائے جبکہ کیمپوں میں بے گھر لوگوں کو طبی دیکھ بھال اور امدادی اشیا کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق گنڈا سنگھ والا اور سلمانکی کے مقام پر دریائے ستلج میں درمیانے درجے کے سیلاب میں کمی آئی ہے جبکہ اسلام کے مقام پر دریائے ستلج میں بھی سیلاب میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
انڈیا کی جانب سے دریائے ستلج میں سیلابی پابی چھوڑنے کے بعد اس زرخیز خطے کے کئی علاقے سیلاب میں ڈوب گئے جس کے نیتجے میں ایک لاکھ 30 ہزار افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی اور ہزاروں ایکڑ پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے دریائے ستلج پانی چھوڑنے کی وجہ سے اس سیلاب نے صوبے کے کئی اضلاع کو متاثر کیا ہے۔
پانی آہستہ آہستہ کم ہونے کے ساتھ 40 کشتیوں پر مشتمل امدادی بیڑا 80 دیہاتوں تک روزانہ دو وقت کا کھانا اور امداد پہنچاتا ہے جہاں مرد گھروں کی چھتوں پر بیٹھ کر اپنے مال کی حفاظت کر رہے ہیں۔
کئی دیہاتوں میں سیلابی پانی اب بھی تقریباً آٹھ فٹ گہرا ہے اور کشتیاں پانی سے بھرے مکئی کے کھیتوں کے اوپر سے گزرتی ہیں۔
پاکستان کے اس علاقے کے ایک خاندان کی آمدنی کا انحصار زراعت پر ہے۔
’گھر میں کچھ بھی نہیں بچا‘
سیلاب نے پنجاب کی رہائشی نسرین بی بی کی مکئی کی فصل کو پہلے تباہ کیا پھر اس پر گزارا کرنے والے مویشی اور اس خاندان کی امیدوں کو بھی بہا لے گیا۔
نسرین بی بی نے بلند ہوتے سیلابی پانی سے بچنے کے لیے چھت پر پناہ لی اور پھر انہیں کشتی کے ذریعے اپنی جانیں بچا کر بھاگنا پڑا۔
اے ایف پی کے مطابق پنجاب کے گاؤں منڈی احمد آباد کے ایک سکول کے اندر لگائے گئے امدادی کیمپ میں موجود 30 سالہ نسرین بی بی کہتی ہیں کہ ’ہم اپنا کوئی سامان اپنے ساتھ نہیں لائے۔ جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم وہیں چھوڑ آئے ہیں۔‘
اپنے کیمپ میں تین بیٹیوں کے ساتھ رہائس پذیر نسرین نے اپنے آنسو پونجھتے ہوئے بتایا: ’گھر میں کچھ بھی نہیں بچا۔ میرے بچوں کے ذہنوں میں خوف ہے۔‘
تل اور چاول کے ڈوبے ہوئے کھیتوں سے گھرے 100 گھروں پر مشتمل ’فلک دے بھینی‘ نامی گاؤں میں کچے مکانات کے کھنڈرات دکھائی پڑے ہیں جہاں گری ہوئی دیواریں پانی میں تاحال ڈوبی ہوئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس گاؤں کے 38 سالہ رہائشی محمد طفیل نے اپنے تباہ شدہ گھر کے سامنے کھڑے نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’میں اگلے سال یہاں فصل نہیں لگانا چاہتا۔ میرا دل اب یہ مزید برداشت نہیں کر سکتا۔‘
ان کے بقول: ’مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں نے ان فصلوں کو لگانے کے لیے کتنی رقم خرچ کی ہے۔ کتنی پریشانیوں سے گزرا لیکن سیلاب نے سب کچھ برباد کر دیا۔‘
ایمرجنسی سروسز کے مطابق جون کے آخر میں مون سون کے موسم شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں بارشوں کے باعث پیش آنے والے واقعات میں 175 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں کو گذشتہ سال موسم گرما میں آنے والے بدترین سیلاب نے تباہ کر دیا تھا جس کو سائنس دانوں نے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دیا تھا۔ یہ علاقے اب بھی بحالی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
’ہر ایک مشکل جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، ہم پر ٹوٹی ہے‘
گذشتہ سال ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا اور 1700 افراد مارے گئے تھے جبکہ 80 لاکھ بے گھر ہوئے۔
حکام نے کہا ہے کہ گذشتہ سال دریائے ستلج کے کنارے واقع دیہات اس سیلاب سے بچ گئے تھے لیکن اب وہ 35 سالوں میں پانی کی بلند ترین سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔
متاثرہ علاقے دیپالپور کے اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ 11 ریسکیو مراکز اور پانچ امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور اگست کے وسط میں سیلاب آنے کے بعد سے ہنگامی کشتیوں کے ساڑھے چار ہزار سے زیادہ پھیروں کے ذریعے لوگوں کو نکالا گیا۔
دیپالپور کے سیلاب زدہ دیہات سیلاب کے دو ہفتے بعد بھی بجلی سے محروم ہیں۔
زیادہ تر مویشیوں کو نکال لیا گیا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والوں کے پاس چارے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔
درختوں کے پتوں پر ایک بھینس، ایک گائے اور ایک بچھڑے کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والی 50 سالہ تاج بی بی نے کہا کہ ’سیلاب میں چارہ تک بہہ گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارے مویشی بھوکے ہیں لیکن ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہم بھوک سے مر رہے ہیں اور ہمارے جانور بھی۔‘
امدادی کارکنوں نے ایک اور متاثرہ گاؤں میں اسہال اور تیز بخار میں مبتلا ایک چھوٹے بچے کو اینٹی بائیوٹک اور ری ہائیڈریشن کی دوائیں پہنچائیں۔
60 سالہ محمد یٰسین نے کہا کہ ’ہر ایک مشکل جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، ہم پر ٹوٹی ہے۔‘