فرحانہ٭ کئی ہفتوں سے طالبان سے چھپ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اپنے کمرے کی چاردیواری میں وہ دیگر ڈھائی ہزار اپنے جیسی ان خواتین کے ساتھ یورینورسٹی کی ورچوئل کلاسز لیتی ہیں جنہیں افغانستان میں یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں ہے۔
طالبان کی جانب سے گذشتہ سال دسمبر میں خواتین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو (کچھ جگہوں پر بندوق کی نوک پر) بند کرنے کے بعد آن لائن کلاس فرحانہ جیسی خواتین کے لیے دوسرے کورسز کے علاوہ ادب، بزنس ایڈمنسٹریشن اور کمپیوٹر سائنس جیسے مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کی واحد جگہ بن گئی ہے۔
ایڈوانس ٹیچنگ میں اپنی ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے لیے فرحانہ زیادہ تر اپنے اسائنمنٹس کے لیے ’ایور نوٹ‘ ایپ کا استعمال کرتی ہیں اور فاصلاتی تعلیم فراہم کرنے والے غیر سرکاری امریکی ادارے ’یونیورسٹی آف دی پیپل‘ میں انہیں جمع کرانے کے لیے ریمانڈرز ایڈ کرتی ہیں۔
فرحانہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ افغانستان میں انہیں فزیکل لائبریریوں تک رسائی نہیں ہے اس لیے ہر چیز آن لائن ہونی چاہیے۔
ان کے بقول: ’میں آن لائن ای بُکس اور سورسز کو پڑھنے پر زیادہ توجہ دیتی ہوں جو دنیا بھر کی لائبریریوں سے منسلک ہیں اور پھر میں اسائنمنٹس پر کام کرنا شروع کر دیتی ہوں۔‘
فرحانہ کابل کے لڑکیوں کے ایک سکول میں انگریزی پڑھاتی تھیں جنہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی سٹوڈنٹس کے خوابوں بکھرتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے فون کال پر بتایا: ’جس طرح سے میری سٹوڈنٹس نے اپنی نم آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھا وہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ ان تمام لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم کے خواب اندر ہی اندر دم توڑ رہے تھے۔‘
وہ ان خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جن کے پاس کم از کم باضابطہ بیچلر ڈگری ہے جب کہ ان کی زیادہ تر طلبات کو اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑنا پڑا۔
فرحانہ نے بتایا: ’میری تقریباً 10 سے 12 نابالغ سٹوڈنٹس اب شادی شدہ ہیں۔ وہ مزید کام اور اپنے خاندان کی کفالت نہیں کر سکتیں۔‘
کابل میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے سے پہلے آن لائن یونیورسٹی میں افغانستان سے تقریباً 300 طلبہ شامل تھے جن میں 90 فیصد مرد تھے۔ اگست 2021 کے بعد یونیورسٹی کو 21 ہزار درخواستیں وصول ہوئیں جس نے خواتین کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ سکالرشپ دیں۔
فرحانہ کے ساتھ حمدیہ بھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں جو بطور ایک صحافی اور سماجی کارکن کام کر چکی ہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے جو امن اور سفارت کاری کے حوالے سے اہم سبجیکٹ ہے۔ انہوں نے اشرف غنی کے دور حکومت میں افغانستان کی پارلیمنٹ میں بطور صحافی کام کیا تھا۔
حمدیہ اگست 2021 میں برپا ہنگامے کے دوران ملک فرار ہونے میں ناکام رہی۔ افغانستان میں رہ جانے پر انہوں نے آخر کار خواتین کے بارے میں سنا کہ وہ اگلے سال ایک گروپ چیٹ پر تعلیم حاصل کرنے اور امتحانات دینے کا انتظام کر رہی ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ ان لوگوں کے لیے ایک اچھا موقع تھا جو افغانستان کے حالات کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پُرعزم تھے۔‘
اب وہ زیادہ تر اپنی پڑھائی رات کے وقت کرتی ہیں کیوں کہ اندھیرے کے پیچھے انہیں اپنا یہ راز چھپانے میں آسانی رہتی ہے۔
حمدیہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی میری خواہش ہوتی ہے کہ میں یہاں کے حالات کی وجہ سے آن لائن کے بجائے ذاتی طور پر اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرو۔ جب بھی میں کوئی بری خبر سنتی ہوں تو میں صرف اس کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں اور پھر میں آن لائن پڑھائی بھی نہیں کر پاتی۔‘
گلوبل پیس چین کمیونٹی میں عالمی امن کی سفیر کے طور پر کام کرنے والی حمدیہ کہتی ہیں کہ وہ پہلے دیہی علاقوں میں تعلیم کی مہم چلانے اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے بارے میں تحریری اور تحقیق میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتی تھیں۔
صنفی مساوات پر ان کے خیالات سے انہیں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسز میں پذیرائی ملی۔
لیکن اب طالبان کی کڑی نگرانی میں وہ آدھی رات کی کلاسز کو محفوظ سمجھتی ہیں اور یونیورسٹی آف پیپل میں اپنے نصاب سے سکون پاتی ہیں۔ یہ 26 سالہ حمدیہ کے لیے آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ ہے۔
ان کے بقول: ’یہاں تک کہ جب ہم میں سے کچھ طالبان سے اپنے سکولز اور کلاسز دوبارہ کھولنے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں انتظار کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم صحیح وقت کے بارے میں لاعلم ہیں۔‘
طالبان نے مارچ 2022 میں چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے سکول اور گذشتہ سال دسمبر میں خواتین کے لیے کالج اور یونیورسٹیوں کے دروازے بند کردیے تھے۔
فرحانہ اور حمدیہ کی طرح کناز بھی ورچوئل یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ وہ بھی کئی ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اس مشکل صورت حال میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا یہ موقع ہاتھ لگا۔ تاہم کبھی کبھی ڈپریشن میرے دماغ پر حاوی ہو جاتی ہے اور میں خود کو کھویا ہوا محسوس کرتی ہوں۔‘
تعلیم حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار طالبان کی نظر میں آنے سے ان کی ذات کو لاحق خطرے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں آن لائن سیکھنے میں دیگر بہت سے عملی مسائل بھی شامل ہیں۔ خواتین کو مستقل بجلی کی فراہمی اور تیز وائی فائی کی ضرورت ہے جو ان کے حلقوں میں لگژری آئٹمز سمجھے جاتے ہیں۔
کناز نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’کبھی کبھی انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم موجودگی چیزوں کو مشکل بنا دیتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب کہ حمدیہ 50 دنوں کے انٹرنیٹ کے لیے ایک ہزار افغانی ادا کر رہی ہیں اور فرحانہ کا اس حوالے سے ماہانہ خرچ ڈھائی ہزار افغانی ہے۔
فرحانہ کہتی ہیں: ’بعض اوقات ہم 40 میں سے 15 خواتین کو کلاسز میں آن لائن دیکھتے ہیں ان میں سے کچھ اپنے والد یا بھائی کے سیل فون کا استعمال کرتے ہوئے لاگ ان ہوتی ہیں۔ یہاں انٹرنیٹ ہمیشہ کام نہیں کرتا۔‘
ان کی ساتھی حمدیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ان بنیادی سہولیت کے فقدان کے نتیجے میں پانچ یا چھ لڑکیوں کو تعلیم چھوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
یونیورسٹی کے صدر شائی ریشیف افغانستان کی ان طلبہ کو درپیش مشکلات کو تسلیم کرتے ہیں خاص طور پر بجلی اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضروریات کے حوالے سے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب آپ کام کرتے ہیں تو زندگی میں مشکل راستوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر آپ ایک افغان خاتون ہیں تو یہ آپ کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔‘
ریشیف کا کہنا ہے کہ جیسے ہی طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا وہ لاکھوں خواتین کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے۔
ان کے بقول: ’ہم سب نے یہ کہانیاں برسوں پہلے سنی تھیں۔ اگست میں ہم نے زیادہ سے زیادہ افغان خواتین کے لیے تعلیم کو ٹیوشن فری بنانے کے منصوبے پر کام کیا ہے۔‘
انہوں نے طالبان کو ان کے فرسودہ فتوؤں کے حوالے سے تاریک مستقبل کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: ’آپ نے اپنی نصف آبادی کے لیے سکولوں اور کالجوں میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ آپ کے خیال میں 20 سالوں میں آپ کا ملک کیسا نظر آئے گا؟‘
حمدیہ بھی اس بے چینی میں جی رہی ہیں۔
ان کے بقول: ’اگر میں اس کورس کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو بھی میرے پاس بیرون ملک ملازمت کے لیے اپنے ملک سے بھاگنے اور اپنے خاندان کو ایک محفوظ زندگی فراہم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بیرون ملک سفر کرنے کے لیے طالبان مجھ سے محرم کے ساتھ جانے کو کہیں گے۔‘
ایسی ہی شکایات بھری ای میلز ریشیف کو خواتین کی طرف سے موصول ہوتی ہیں جن میں سے کچھ انخلا کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔ وہ ایک ایسے حل کے لیے کام کر رہے ہیں جس سے ان کی مدد ہو سکے۔
ان کے بقول: ’ہم ان خواتین کو کچھ نوکریوں کے لیے انٹرنشپ اور غیر ملکی تنظیموں کے ساتھ رابطے فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ سفر گریجویشن پر ختم نہ ہو۔‘
* خواتین کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔
© The Independent