انڈیا میں صرف دو میوزیم ایسے ہیں جنہوں نے 1947 کے المناک واقعات کی یادوں کو سمیٹ رکھا ہے، جن میں سے ایک میوزیم امرتسر میں ہے جبکہ دوسرا میوزیم دہلی میں ہے۔
دہلی میوزیم تقسیم سے متعلق تاریخی واقعات کی کہانی بیان کرتا ہے۔
اس میوزیم میں آزادی کے وقت چلنے والی ریل گاڑی کی نقل، قدیم حویلیوں کی تصویریں اور پناہ گزین کیمپ کی عکاسی کرنے والے خیمے کے علاوہ مہاجرین کے استعمال شدہ کپڑے، کتابیں، خطوط، برتن، کیمرہ، بجلی میٹر سمیت بٹوارے کی آڈیو، ویڈیو اور فوٹوگرافک یادیں محفوظ کی گئی ہیں۔
میوزیم کی ڈائریکٹر اشونی پائے بہادر نے انڈپینڈینٹ اردو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ دہلی میں ’بٹوارہ میوزیم‘ قائم کرنے کے پیچھے برسوں کی جدوجہد کار فرما ہے۔
’سینکڑوں مہاجر خاندانوں کے انٹرویوز، بچی کچھی یادگاروں کو سمیٹنے کی تھکا دینے والی کوششوں، تصویروں کے ذریعے تقسیم ملک کی طویل تاریخ کو کچھ کمروں میں سمیٹنے اور ٹکنالوجی کے استعمال کے بعد اس میوزیم کا قیام ہوا۔‘
یہ میوزیم امبیڈکر کالج دہلی کے دارہ شکوہ لائبریری میں بنایا گیا ہے۔
اشونی بتاتی ہیں کہ ’میوزیم کے اندر داخل ہوتے ہی ایک گھوڑا نظر آتا ہے، جسے میر منشی نے بنایا ہے، وہ بٹوارے کی تباہی کا علامتی آرٹ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ ایک گرا ہوا گھر، جو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح لاکھوں لوگ خانہ برباد ہوئے۔‘
ان کے مطابق پھر گیلریوں کی شروعات ہوتی ہے۔ ہر گیلری میں الگ الگ کہانیاں ہیں۔ کسی میں آزادی کے لیے جدو جہد کی داستان، کہیں ہجرت کی یادیں تو کہیں زخم پر مرہم رکھنے آور بازآبادکاری کے قصے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پہاڑوں جیسا درد چھپا ملے گا۔
اشونی کے مطابق دنیا بھر میں یہ دوسرا میوزیم ہے، جو بٹوارے پر ہے۔
’بٹوارے کا پہلا میوزیم امرتسر میں ہے، ٹاؤن ہال کے پاس۔ دہلی کا پارٹیشن میوزیم حال ہی میں شروع ہوا ہے جس کا افتتاح 18 مئی 2023 کو ہوا تھا اور اس کے بعد اس میوزیم کو عوام کے لیے کھول دیا۔ دہلی کا میوزیم دہلی کے لوگوں پر مرکوز ہے، جو مہاجرین دہلی آئے تھے، ان کی پوری کہانی ہے۔‘
اشونی بتاتی ہیں کہ میوزیم میں 200 سے زائد آڈیوز اور ویڈیوز ہیں جو بٹوارہ کی پوری تاریخ بیان کرتے ہیں۔
یہ دراصل ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کی یادگار ہیں جو ایک شب میں بے گھر ہو گئے اور جان گنوا دی۔
میوزیم کی سات گیلریوں میں سفر کی شروعات 1900 سے ہوتی ہے، جس کے بعد تقسیم، فسادات اور خانہ بربادی کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس میوزیم میں ان لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو فسادات کے عینی شاہد ہیں۔
اشونی کہتی ہیں کہ ’انہوں نے کیا دیکھا، اسے ہم نے محفوظ کیا اور پھر اسے زبانی تاریخ کے طور پر میوزیم میں پیش کیا ہے۔ یہ میوزیم نہ صرف ایک یادگار ہے، بلکہ ایک سبق ہے امن اور محبت کا۔ یہ بتاتا ہے کہ رواداری اور ہم آہنگی کیوں ضروری ہے۔ یہ ایک الارم ہے، جو ہمیں تشدد سے دور رہنے کے لیے آگاہ کرتا ہے۔‘