چین مبینہ طور پر ایک نیا قانون نافذ کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو ایسا لباس پہننے پر سزا دی جا سکے جو کمیونسٹ حکومت کے مزاج کے خلاف ہو۔
مجوزہ قانون کے مسودے کے مطابق لباس یا تقریر سمیت طرز عمل کے وسیع دائرے پر پابندی ہوگی، جس میں ’چینی عوام کی روح کے لیے نقصان دہ ہونا اور چینی عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا‘ شامل ہے۔
ویب سائٹ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ ملکی مقننہ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، جو رواں سال منظوری کے لیے اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو 15 دن تک حراستی مرکز بھیج دیا جائے گا یا پانچ ہزار یوآن (545 پاؤنڈ) تک کا جرمانہ کیا جائے گا، تاہم یہ واضح نہیں کہ حکومت کی جانب سے کون سی تصاویر یا تقریر کو قابل اعتراض قرار دیا جائے گا۔
اس مسودہ قانون سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چین کے صدر شی جن پنگ کے ایک دہائی سے جاری اقتدار کے دوران تقریباً ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال شنگھائی کے قریب واقع شہر سوژو میں ایک خاتون کو عوامی مقام پر کِمونو (روایتی جاپانی لباس) پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی حکام حالیہ مہینوں میں موسیقی کے پروگراموں میں قوسِ قزح والی شرٹ پہننے یا ہم جنسی پرستی کی حمایت کرنے والی علامتوں کے جھنڈے تقسیم کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کر چکے ہیں۔
مجوزہ قانون کی وجہ سے سوشل میڈیا پر چینی شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ حکام کو کیسے پتہ چلے گا کہ کب قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔
چینی مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ویبو پر ہینڈل ’نلان لانگ یویویو‘ نے سوال کیا کہ کیا چینی قوم کا جذبہ مضبوط اور لچکدار نہیں ہونا چاہیے۔ ملبوسات سے اسے آسانی سے نقصان کیوں کر پہنچایا جا سکتا ہے؟‘
اس سے قبل 2019 میں ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں مظاہروں کے دوران چینی حکومت نے چین سے ہانگ کانگ میں سیاہ رنگ کی برآمد پر اس وجہ سے پابندی عائد کردی تھی، جب مظاہرین نے ریلیوں کے دوران سادہ سیاہ ٹی شرٹس، پتلون اور فیس ماسک کو یونیفارم کے طور پر اپنا لیا تھا۔
بیجنگ کی جانب سے جن اشیا پر پابندی عائد کی گئی تھی، ان میں سیاہ رنگ کی شرٹس اور دیگر کپڑے، ہیلمٹ، چھتریاں، واکی ٹاکی، ڈرون، عینکیں اور دھاتی زنجیریں شامل ہیں۔
© The Independent