سارہ قتل کیس: پانچوں بچے سرکاری ادارے کی تحویل میں دے دیے گئے

پولیس نے سارہ شریف کے پانچ بہن بھائیوں کو پیر اور منگل کی درمیانی شب حفاظتی تحویل میں لینے کے بعد دادا کے حوالے کر دیا۔ 

صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں ایک ذیلی عدالت نے سارہ شریف کے پانچ بہن بھائیوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو راولپنڈی منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔  

پولیس نے پیر اور منگل کی درمیانی شب سارہ شریف کے دادا محمد شریف کی دکان اور گھر پر چھاپہ مارا، جہاں سے پانچ بچے حفاظتی تحویل میں لیے گئے تھے لیکن انہیں دادا ہی کے گھر میں رہنے دیا گیا۔   

ان بچوں کو منگل کو پہلے جہلم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہلم کی عدالت میں پیش کیا گیا جس کے بعد اسے علاقہ مجسٹریٹ جاوید اقبال کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ 

مختصر سماعت کے بعد انہیں بچوں کے تحفظ سے متعلق سرکاری ادارے ’چائلڈ پروٹیکشن بیورو‘ راولپنڈی بھجوانے کا حکم دیا گیا۔ 

ان بچوں کی عمریں ایک سے 13 سال کے درمیان ہیں۔ 

برطانیہ کے علاقے ووکنگ میں ایک گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے قتل کی تفتیش کے لیے لندن پولیس کی درخواست پر پاکستان میں سارہ کے والد، سوتیلی والدہ کی تلاش جاری ہے۔ 

سارہ کی لاش 10 اگست کو سرے کے شہر ووکنگ میں ان کے گھر سے ملی تھی اور اسی روز سے سارہ کے والد اور ان کی سوتیلی والد پانچ بچوں کے ہمراہ پاکستان آ گئے تھے۔ بچے تو اپنے دادا کے ہمراہ جہلم میں تھے لیکن سارہ کے والدہ اور سوتیلی والدہ تاحال روپوش ہیں۔ 

سارہ شریف کے دادا کے گھر پر چھاپہ

جہلم پولیس کے سربراہ ناصر محمود باجوہ نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جہلم کینٹ کے علاقے لوٹا چوک میں عرفان شریف کے آبائی گھر پر چھاپے کے دوران ان کے 12 سالہ بیٹے نعمان، دو چھے سالہ جڑواں بہنوں حنا اور بسمہ، چار سالہ احسان اور ڈیڑھ سالہ ازلان کو تحویل میں لے لیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر ’ڈی پی او‘ کے مطابق عرفان شریف کے والد محمد شریف کی دکان اور رہائش گاہ پر عدالت سے سرچ وارنٹ لے کر چھاپہ مارا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حفاظتی تحویل میں لینے جانے کے بعد بچے دوبارہ ان کے دادا کے حوالے کر دیے گئے لیکن ان کے گھر کے باہر سکیورٹی تعینات کر دی گئی۔ 

انہوں نے کہا کہ ’پانچوں بچے برطانوی شہری ہیں اگر برطانیہ حکومت انہیں اپنے حوالے کرنے کی درخواست کرتی ہے تو یہ عدالت کا اختیار ہے کہ بچوں کو ان کے حوالے کیا جائے یا ان کے دادا کو رکھنے کی اجازت دی جائے۔‘

ناصر محمود کے بقول ’پولیس برطانیہ میں پر اسرار طور پر مرنے والی بچی سارہ شریف کے والد عرفان شریف ان کی اہلیہ بینش بتول اور ایک بھائی فیصل ملک کو تلاش کر رہی ہے۔ ابھی تک ان کا سراغ نہیں ملا جیسے ہی ان کے بارے میں کوئی اطلاع ملتی ہے فوری حراست میں لے لیا جائے گا۔‘ 

بچوں کو تحویل میں لینے کی پولیس کارروائی

بچوں کے دادا محمد شریف نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس گذشتہ کئی روز سے سارہ شریف کی موت سے متعلق معلومات لے رہی ہے۔ مجھے جو کچھ معلوم تھا بتا دیا پولیس کا علم تھا کہ بچے میرے پاس ہیں۔ لیکن پیر کی رات اچانک دوکان اور گھر کے تالے توڑ کر پولیس اندر گھسی مجھے اور بچوں کو پکڑ لیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب بھی یہیں موجود ہیں ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ عرفان اور ان کی اہلیہ کہاں ہیں۔ ہم سے ان کا نہ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی کوئی ملاقات ہوئی ہے پھر بھی پولیس یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


محمد شریف کے ایک محلہ دار شرافت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کئی روز سے مسلسل محمد شریف کی دوکان اور گھر کے باہر چکر لگا رہی تھی اور ان سے معلومات بھی جمع کی جارہی ہیں۔

شرافت کے بقول ’انہوں نے عرفان شریف اور ان کی اہلیہ کو محلے میں نہیں دیکھا البتہ کبھی خفیہ طور پر بچوں کو ملنے آئے ہوں تو ہم کچھ کہ نہیں سکتے۔‘

معاملہ ہے کیا؟

ڈی پی او جہلم کے مطابق ’انہیں اگست میں انٹر پول کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ پاکستانی نژاد ایک دس سالہ بچی کی لاش اس کے گھر سے برآمد ہوئی ہے جس کی شناخت سارہ شریف کے نام سے ہوئی ہے اور ان کی موت غیر طبی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن بچی کے والدین گھر پر موجود نہیں، انہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ پاکستان کے شہر جہلم آئے ہیں۔ لہذا اس خاندان کو حراست میں لیا جائے تاکہ ان سے تفتیش ہوسکے۔‘

ڈی پی او ناصر محمود کے بقول ’اس خط کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی شروع کرتے ہوئے عرفان شریف اور ان کے ہمراہ آنے والے دیگر افراد کی تلاش شروع کر دی۔ جب ان کی رہائش گاہ اور رشتہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی تو ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ لہذا ان کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں جلد ہی پولیس انہیں پکڑنے میں کامیاب ہوجائے گی۔‘

گذشتہ ہفتے عرفان شریف کی اہلیہ بینش بتول نے اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھے کسی نامعلوم مقام سے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’سارہ کی موت معمول کا واقعہ تھا ہماری فیملی کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہم اس لیے چھپے ہوئے ہیں کہ پولیس ہم پر تشدد کرے گی یا ہمیں مار دے گی۔‘

پولیس ریکارڈ کے مطابق جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملک عرفان شریف نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اولگا سے شادی کی تھی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ 2017 میں عرفان نے اولگا کو طلاق دے دی جس کے بعد عدالتی حکم پر دونوں بچوں کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا۔

عرفان شریف اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ  ہو گئے تھے جہاں 10گست 2023 کو سارہ شریف کی موت واقعہ ہوئی۔ بچی کی موت کے دوسرے دن ہی ملک عرفان برطانیہ چھوڑ کر فیملی کے ہمراہ پاکستان پہنچے اور کہیں روپوش ہو گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان