انڈیا کا انتہائی مطلوب ’گئو رکشک‘ سات ماہ بعد گرفتار

انڈیا کے شہر نوح میں مذہبی تشدد کا ملزم پڑوسی ریاست راجستھان میں گائے کی حفاظت کے بہانے دو مسلمان مردوں کے قتل میں بھی مطلوب ہے۔

پانچ نومبر، 2015 میں ’گئو رکشک‘ گروہ کے افراد انڈیا کے راجستھان کے تارا نگر میں ایک ہائی وے پر ایک ٹرک کو روک رہے ہیں (اے ایف پی/ فائل)

انڈیا میں پولیس نے ایک نام نہاد ’گئو رکشک‘ کو گرفتار کیا ہے جس پر جولائی میں شمالی انڈین ریاست ہریانہ میں مہلک مذہبی تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق موہت یادو، جنہیں مونو مانیسر کے نام سے جانا جاتا  ہے، کو سوشل میڈیا پر فرضی نام سے مبینہ طور پر ’قابل اعتراض اور اشتعال انگیز‘ پوسٹ اپ لوڈ کرنے کے الزام میں منگل کو حراست میں لیا گیا۔

انڈیا کے شہر نوح میں مذہبی تشدد، جس میں کم از کم چھ افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے تھے، کا ملزم پڑوسی ریاست راجستھان میں  گائے کی حفاظت کے بہانے دو مسلمان مردوں  کے قتل میں بھی مطلوب ہے۔ مسٹر مانیسر کسی بھی غلط کام سے انکار کرتے ہیں۔

انہیں سائبر کرائم پولیس سٹیشن نوح اور کرائم برانچ کی مشترکہ ٹیم نے ریاست ہریانہ کے قصبہ مانیسر سے گرفتار کیا تھا اور اب راجستھان پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔

نوح پولیس نے ان کی حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’ڈیگ پولیس نے موہت عرف مونو مانیسر کو عدالت سے فوجداری ریمانڈ پر لیا ہے۔ مزید کارروائی ڈی آئی جی (راجستھان) پولیس کریں گے۔‘

اس وقت انڈین حکام نے بتایا تھا کہ31 جولائی کو دائیں بازو کے ہندو قوم پرست گروپوں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے ایک مذہبی جلوس پر پتھراؤ کے بعد تشدد شروع ہوا تھا۔

تاہم کئی مقامی لوگوں نے گذشتہ ماہ کے شروع میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ جلوس میں شامل لوگوں نے تلواریں لہرائیں اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔

شام تک تشدد پڑوسی شہر گروگرام تک پھیل گیا تھا، جسے آئی ٹی اور کاروباری مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ایک امام اور دوسرا شخص زخمی ہو گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تشدد کے جواب میں، نوح میں حکام نے سینکڑوں املاک کو مسمار کر دیا، جسے انہوں نے ’تجاوزات کے خلاف مہم‘ قرار دیا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ بنیادی طور پر اقلیتی گروہوں کو نشانہ بنانے کے لیے غیر متناسب طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

 متعدد مقامی لوگوں نے عدالتوں کا رخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ان کے گھروں کو تباہ کردیا گیا ہے۔

اس سال فروری میں دو افراد جنید اور ناصر کے قتل کے اہم ملزم مانیسر کی نوح میں مذہبی جلوس میں شرکت کی افواہوں کے باعث دن بھر دونوں گروہوں کے درمیان تناؤ بڑھتا رہا۔

16  فروری کو جنید اور ان کے کزن ناصر کو مبینہ طور پر ہجوم نے اس وقت آگ لگا دی تھی جب وہ اپنی کار کے اندر تھے۔ مانیسر سمیت کل نو لوگوں کے خلاف کیس درج کیا گیا تھا، جبکہ انہوں نے ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔

ان قتلوں کے بعد سے  مانیسر مفرور تھے اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے قبل ازیں ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کو ان کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔

کھتر نے اس سے قبل پڑوسی شمال مغربی ریاست  کا  حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کے خلاف مقدمہ  راجستھان حکومت نے دائر کیا  ہے۔

انہوں نے اس ماہ کے آغاز میں کہا تھا، ’میں نے راجستھان حکومت سے کہا ہے کہ اگر انہیں اس کا پتہ لگانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے، تو ہم مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب راجستھان پولیس اس کی تلاش کر رہی ہے۔ ہمارے پاس اس کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ان کے پاس ہے یا نہیں، ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘

یہاں تک کہ مسٹر مانیسر تشدد کے بعد انٹرویو دینے کے لیے متعدد ٹی وی چینلوں پر نظر آئے۔

ان کی گرفتاری کے بعد ہندو دائیں بازو کے گروپ بجرنگ دل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ریاست کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر گروپ کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

بجرنگ دل ہریانہ کے ریاستی کوآرڈینیٹر بھارت بھوشن نے دی پرنٹ کو بتایا، ’بی جے پی نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بی جے پی سیاسی دباؤ کے سامنے جھک جائے گی اور مونو مانیسر جیسے بے گناہ شخص  کو گرفتار کرے گی جس نے ہمیشہ گائے کی حفاظت کو فروغ دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’یہ کام خود وزیراعلیٰ منوہر لال کھتر نے کیا ہے ۔ جس طرح سے وہ مونو مانیسر اور بٹو (بجرنگی) پر توجہ دے رہے ہیں، اسی طرح انہیں میوات اور اس علاقے میں گائے سمگلروں پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا، تو گائے کی سمگلنگ کم ہو جاتی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا