افغانستان میں طالبان حکام نے ہفتے کو بتایا کہ انہوں نے ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کے کم از کم 18 ارکان کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں ایک امریکی خاتون بھی شامل ہے۔
افغان طالبان کے رہنماؤں نے اپنے بیان میں ان افراد پر مشنری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی مشن (آئی اے ایم) نے تصدیق کی ہے کہ اس کے عملے کو وسطی افغانستان کے صوبہ غور میں اس کے دفتر سے گرفتار کرکے دارالحکومت کابل لے جایا گیا۔
صوبہ غور کے حکومتی ترجمان عبدالواحد حماس غوری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کچھ عرصے سے اس گروپ پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔
انہوں نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ’حاصل کردہ دستاویزات اور آڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عملہ لوگوں کو مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’21 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں ایک امریکی خاتون شامل ہے۔‘
آئی اے ایم نے اس سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک ’غیر ملکی‘ سمیت 18 افراد کو حراست میں لیا گیا، اور انہیں الزامات کی نوعیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔‘
امریکی خاتون اور افغان عملے کے دور ارکان کو سب سے پہلے تین ستمبر کو حراست میں لیا گیا تھا، جس کے بعد بدھ کو مزید 15 افغان ملازمین کو حراست میں لیا گیا۔
غیر سرکاری تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر ہماری تنظیم یا عملے کے کسی رکن کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے تو ہم آزادانہ طور پر پیش کیے گئے کسی بھی ثبوت کا جائزہ لیں گے۔‘
آئی اے ایم کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ تنظیم کی بنیاد مسیحی اقدار پر رکھی گئی ہے، تاہم یہ سیاسی یا مذہبی عقیدے کے مطابق امداد فراہم نہیں کرتی۔
سوئس رجسٹرڈ گروپ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ ’ہم مقامی رسم و رواج اور ثقافتوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔‘
آئی اے ایم 1966 سے افغانستان میں فعال ہے اور ماضی کی شاہی، کمیونسٹ اور طالبان حکومتوں کے دوران بھی کام کرتی رہی ہے۔
افغانستان میں کام کے دوران اس تنظیم نے آنکھوں کی دیکھ بھال میں مہارت حاصل کی اور بعد میں صحت اور تعلیم کے دیگر شعبوں میں بھی خدمات فراہم کی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2010 میں شمالی افغانستان میں ایک حملے میں آٹھ غیر ملکیوں سمیت آئی اے ایم کے طبی عملے کے 10 ارکان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس وقت حملے کے محرکات کے بارے میں مختلف موقف سامنے آئے تھے اور پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر ڈکیتی کی کارروائی تھی۔
تاہم دو عسکریت پسند گروہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں طالبان رہنما بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے کہا کہ یہ طبی عملہ مشنری تھا۔ ان افراد پر فوجی جاسوسوں کے طور پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے طالبان حکام نے درجنوں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے، جن میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی شہری بھی شامل ہیں۔
طالبان حکمرانوں نے افغانستان کے شہریوں پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جن خواتین کو این جی اوز اور اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے روکنا بھی شامل ہے۔
جبکہ نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے پر بھی پابندی عائد ہے۔