پاکستان میں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ توانائی کے نگران وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس قیمتوں کے حوالے سے محدود کنٹرول ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی میں حالیہ اضافے پر جماعت اسلامی نے احتجاج کی کال دی تھی جس پر اتوار کو کراچی میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے 19 ستمبر کو کراچی میں ’بڑے‘ احتجاج کی کال دی۔
کراچی میں شاہراہ فیصل پر احتجاجی مظاہرے کے شرکا سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے عوام 19 ستمبر کو اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو سڑکوں پر لا کر بند کردیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو سڑکوں پر لا کر بند کر دیں اور ہارن بجا کر اپنے آواز اسلام آباد تک پہنچائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت نے ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کی غلامی اختیار کرتے ہوئے ایک اور پیٹرول بم پاکستان کے پچیس کروڑ عوام پر پھینکا ہے۔‘
وزارت خزانہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 23 روپے دو پیسے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیا گیا تھا۔
’تیل کی 70 فیصد ضروریات کے لیے درآمدات پر بھاری انحصار‘
اس اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 331 روپے 38 پیسے ہوگئی ہے جبکہ 17 روپے 34 پیسے کے اضافے کے بعد ڈیزل کی نئی قیمت 329 روپے 18 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے نگران وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی تیل کی 70 فیصد ضروریات کے لیے درآمدات پر بھاری انحصار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ان مصنوعات کو صارفین کو ان ہی نرخوں پر فروخت کرنا چاہیے جن پر ہم انہیں بین الاقوامی مارکیٹ سے خریدتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگران وزیر توانائی محمد علی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی میں غلط قیمتوں کا تعین اور پاکستان کے تیل اور گیس کے ذخائر کو پوری طرح سے کھوجنے میں ناکامی ملکی تاریخ میں کی گئی اہم غلطیوں میں سے ایک ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ اس وقت ہم ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں 3.5 ارب ڈالر مالیت سے کم تیل اور گیس نکال رہے ہیں۔‘
نگران وزیر توانائی نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سطح پر قیمتوں کے علاوہ حکومت کو پیٹرولیم ڈیلرز کے لیے کچھ منافع کا مارجن شامل کرنا پڑا کیوں کہ گذشتہ حکومت کے آخری دنوں میں ڈیلرز نے ہڑتال کی کال دی ہوئی تھی۔
ان کے بقول: ’ان عوامل کے باوجود ہم خطے میں سب سے کم قیمت پر پیٹرول پیش کرتے ہیں کیونکہ حکومت اس سے کوئی منافع نہیں کما رہی تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس میں چند ٹیکس شامل ہیں جو کہ دنیا بھر میں ایک ’عام رواج‘ ہے۔‘