آپ کو 1973 میں لوٹنا پڑے گا۔ کم از کم، اس وقت ’میل شاونسٹ پِگس‘ (مردوں کی بالادستی کے قائل لوگ) فخریہ یقین رکھتے تھے کہ ’خواتین کی جگہ ان کے بیڈروم اور کچن‘ میں ہے۔ ہم جانتے تھے کہ اکثر ہمیں کن مسائل کا سامنا تھا کیونکہ یہ واضح طور پر عیاں تھا۔
کم از کم بلی جین کنگ نے اسے بدلا۔ آج سے 50 سال پہلے جب وہ 29 سال کی تھیں اور پہلے ہی 10 بار گرینڈ سلیم ٹائٹل اپنے نام کر چکی تھیں، بلی کنگ نے امریکی مردوں میں سابق نمبر ایک بوبی رگز سے مقابلہ کیا۔
انہوں نے اس مقابلے کو یہ مخصوص الفاظ دیے۔ ایک ٹینس میچ جسے ’بیٹل آف دی سیکسز‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے کھیلوں کے مقابلوں میں سے ایک ہے جس کو نو کروڑ افراد نے اپنی ٹی وی سکرینوں پر اور 30 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ٹینس کورٹ میں بیٹھ کر دیکھا۔
اس وقت 55 سالہ بوبی رِگز نے خواتین کے کھیل کو کمتر ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ ان جیسا ایک ریٹائرڈ مرد کھلاڑی بھی ایک خاتون کھلاڑی کو اس کے عروج کے دنوں میں شکست دے سکتا ہے۔
بلی کنگ نے تمام سیٹس میں بوبی کو شکست فاش دے کر ایک لاکھ ڈالر کی انعامی رقم جیتی لیکن وہ جانتی تھیں کہ یہ مقابلہ ہارنے کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔
یہ وہ دور تھا جب کام کرنے والی خواتین کو ’پاگل مردوں‘ کی جانب سے دفتری سیاست کا سامنا کرنا پڑتا تھا یعنی ان کی سرپرستی کا دعویٰ کیا جاتا، ان کی پشت پر تھپکی دی جاتی اور مرد ان کے ڈیسک کے گرد منڈلاتے رہتے۔
ہم کسی مرد کے دستخط کے بغیر کریڈٹ کارڈ کے لیے درخواست نہیں دے سکتے تھے، اپنے بینک اکاؤنٹس نہیں کھول سکتے تھے اور یہاں تک کہ صنف کی بنیاد پر تنخواہ کے بڑے فرق کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے۔
خواتین کھلاڑیوں کو مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم انعامی رقم دی جاتی۔ اتنی بھاگ دوڑ، پسینہ بہانا اور یہ صلہ؟۔ خواتین کی اتنی حق تلفی۔ لیکن بلی جین کنگ نے 1970 میں طبل جنگ بجا دیا۔ انہوں نے ساتھی باغی کھلاڑیوں کے ایک گروپ کے ساتھ خواتین کے ٹینس ٹور کا آغاز کیا جسے اس وقت کے ایک خوف زدہ مرد صحافی نے ایک بیماری سے تشبیہ دی۔
بیٹل آف سیکس کے منتظمین نے اس مقابلے کے لیے سنسنی پیدا کر دی تھی۔ آپ نے شاید اس کی فوٹیج یا فلمی ورژن دیکھا ہوگا جس میں بوبی رگز اپنے ’بوسم بڈیز‘ یعنی خوبرو مقامی خواتین کے جھرمٹ میں ایک مضحکہ خیز گاڑی کے اوپر سے ہیوسٹن ایروڈروم میں داخل ہوئے جب کہ ان کی کٹ کو ’شوگر ڈیڈی‘ لوگو سے مزین کیا گیا تھا۔
بلی کنگ کو بغیر قمیض والے مرد ’غلاموں‘ کے گھیرے میں ٹینس کورٹ لے جایا گیا جب کہ ایک بینڈ نے ہیلن ریڈی کا ’آئی ایم وومین‘ گانا بجایا تھا۔ تبصرہ نگار ہاورڈ کوسل نے اس بارے میں بتایا: ’کبھی کبھی آپ کو یہ احساس ہوتا کہ اگر وہ کبھی اپنے بالوں کو اپنے کندھوں تک بڑھا لیں اور اپنی عینک اتار دیں تو وہ کسی ہالی وڈ کی ہیروئن سے کم نظر نہ آتیں۔‘
1995 میں فوت ہونے والے بوبی رگز نے میچ سے قبل ایک پریس کانفرنس میں اصرار کیا: ’میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں کیوں جیتوں گا۔ وہ (بلی کنگ) ایک عورت ہے اور ان میں جذباتی استحکام نہیں ہے۔ وہ چوک کر جائیں گی، مرد ہمیشہ برتر ہوتا ہے۔‘
ان کے خیالات اس وقت مشکل سے ہی سامنے آئے تھے جب صرف ایک سال پہلے یعنی 1972 کے ومبلڈن چیمپئن سٹین سمتھ نے کہا تھا کہ ’ایک عورت کو گھر میں رہنا چاہیے اور بچے پیدا کرنے چاہئیں کیوں کہ وہ اسی کام کے لیے ہیں۔ خواتین کی آزادی کی بات بہت آگے جاسکتی ہے۔ آپ صرف اس کے بارے میں سوچیں جب آپ اگلی بار اپنے سفید ٹرینرز پہنیں گے۔‘
بوبی رگز اور بلی کنگ کے کورٹ میں داخل ہونے کے دو گھنٹے اور چار منٹ بعد دنیا مختلف نظر آئی۔ اس کے تمام اوور دی ٹاپ پبلسٹی سٹنٹ کے ساتھ ’بیٹل آف دی سیکس‘ خواتین کے حقوق کے لیے ایک سنگِ میل تھا جس نے اس تصور کو ختم کر دیا کہ وہ لاکھوں لوگوں کے سامنے کھیلوں کے میدانوں کی بجائے گھر میں رہیں۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ انہیں مختلف انداز سے دیکھا گیا اور ان کی قدر کی گئی۔ اسی سال یو ایس اوپن میں مساوی انعامی رقم حاصل کرنے اور ویمنز ٹینس ایسوسی ایشن (ڈبلیو ٹی اے) کے لیے راہ ہموار کرنے والی بلی کنگ کا کہنا ہے کہ لوگ اب بھی ہر روز اسی میچ کے بارے میں بات کرنے کے لیے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ رِگز نے اپنی فتح کے فوراً بعد ٹینس کورٹ میں بلی کنگ کو بتایا: ’میں نے آپ کو کم تر سمجھا تھا۔‘
ان کی یہ 1973 کی پہلی فتح نہیں تھی کیوں کہ اسی سال جنوری میں اسقاط حمل کے حقوق کو امریکی آئین میں شامل کیا گیا اور خواتین کو تعلیمی پروگرامز میں جنسی امتیاز سے بچانے کے لیے کانگریس نے ٹائٹل IX پاس کیا جسے وفاقی فنڈنگ حاصل تھی۔ اس دوران تحریک نسواں کی دوسری لہر نے زور پکڑا تھا لیکن بلی کنگ کی فتح نے اس میں ایک نئی جان ڈال دی۔ وہ صحیح کورٹ میں، صحیح وقت پر ایک صحیح خاتون تھیں۔
بلی کنگ نے کہا کہ انہوں نے ’خواتین کو خود اعتمادی دی کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے کھڑی ہوں کیونکہ ہمیں ایسا کرنا نہیں سکھایا جاتا تھا۔
’انہوں نے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کیا۔ بہت سی خواتین نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے ان کی یا ان کی دادی کی زندگی یا کسی کی زندگی کو کیسے بدلا ہے۔ صرف مختلف نسلوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔‘
اس کے باوجود اب بھی جنس کی لڑائی میں کورٹ کے اندر اور باہر انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صرف اس ہفتے ہسپانوی کھلاڑی جینی ہرموسو نے ملک کی فٹ بال فیڈریشن پر الزام لگایا کہ وہ ورلڈ کپ کے دوران خاتون کھلاڑی کا زبردستی بوسہ لینے والے صدر لوئس روبیئلز کے استعفے کے بعد خواتین کھلاڑیوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں ’دھمکانے‘ کی کوشش کر رہی ہے۔
اور ہمیں کھیل، سیاست، تفریح، کاروبار، طب اور بہت سے دوسرے میدانوں میں بلی جین کنگ جیسے لمحات کی ضرورت ہے جن میں خواتین کو اب شامل تو کیا گیا ہے لیکن انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔
ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ کہ نصف صدی گزرنے کے بعد وہ اب بھی ہمیں کم تر سمجھ رہے ہیں۔
© The Independent