برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے کہا ہے کہ انہیں اپنے شہر سے محبت ہے اور وہ آئندہ سال مئی میں تیسری مدت کے لیے میئرشپ کا انتخاب لڑیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں صادق خان نے کہا کہ وہ لندن کے میئر کے لیے آئندہ برس تیسری مرتبہ بھی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’میں لندن سے محبت کرتا ہوں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ یہ دنیا کا عظیم شہر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ لندن کا میئر بننا دنیا میں ایک بڑی ذمہ داری ہے، اس لیے میں اگلے سال مئی 2024 میں ایک بار پھر میئر کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں۔‘
صادق خان 2016 میں پہلی مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے تھے جب کہ 2021 میں ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ دوسری مدت کے لیے انہوں نے اس منصب کا انتخاب جیتا۔
لندن کا میئر منتخب ہونے سے قبل بھی وہ سیاست کے میدان میں تھے۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن، وزیر اور شیڈو کیبنٹ کا حصہ بھی رہے۔
صادق خان نے 2005 میں برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کا رکن بننے سے قبل اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انسانی حقوق کے ایک وکیل کے طور پر کیا تھا۔
صادق خان اگر تیسری مدت کے لیے لندن کے میئر کا انتخاب جیت گئے تو یہ بھی ایک تاریخ ہو گی کیوں کہ اس سے قبل کوئی بھی مسلسل تین مرتبہ لندن کا میئر منتخب نہیں ہوا۔
ماضی میں لندن کے میئر رہنے والے بورس جانسن دو مرتبہ اس عہدے پر رہنے کے بعد وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے، لیکن صادق خان کا کہنا ہے کہ انہیں ویسٹ منسٹر میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں کا حصہ بننے میں مزید دلچسپی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ’کوئی بھی سیاست دان جھوٹ بولے گا اگر وہ یہ کہے کہ وزیراعظم بننے کے بارے میں ان کے ذہن میں کبھی خیال نہیں آیا، لیکن ایمان داری سے یہ (تصور) میرے لیے ایک سوچ سے زیادہ نہیں رہا۔
’ویسٹ منسٹر واپس جانے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ مجھے اپنا کام بہت پسند ہے۔ لندن میں بچوں کے لیے سکولوں میں مفت کھانے کی فراہمی سے لے کر زیادہ سستے مکان بنانے تک اور صاف ہوا سب کے لیے، مجھے یقین ہے کہ یہ دنیا کا بہترین کام ہے۔‘
لندن کو محفوظ بنانے کا عزم
صادق خان نے کہا کہ وہ لندن کو یہاں کے تمام شہریوں کے لیے تشدد سے پاک اور محفوظ شہر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ’میٹروپولیٹن پولیس اور لندن کے وائلنس ریڈکشن یونٹ (تشدد میں کمی لانے کے یونٹ) پر سٹی ہال کی ریکارڈ سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ جب سے میں 2016 میں (میئر) منتخب ہوا تھا، تب سے دارالحکومت میں تشدد کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ لندن میں چاقو اور بندوق کے زور پر کیے گئے جرائم کے علاوہ چوری اور نو عمر افراد کے قتل کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
صادق خان نے بتایا کہ وہ لندن کے میٹرو پولیٹن پولیس کے کمشنر سر مارک رولی کے ساتھ مل کر لندن کی سڑکوں اور علاقوں میں کمیونٹی پولیسنگ کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’1,300 اضافی ٹاؤن سینٹر افسران کو براہ راست فنڈز فراہم کر رہا ہوں اور 500 نئے پولیس کمیونٹی سپورٹ افسران کو بھرتی کیا جا رہا ہے تاکہ ہمارے عظیم شہر کا دورہ کرنے والا ہر شخص محفوظ طریقے سے لطف اندوز ہو سکے۔‘
یونیورسٹی کالج لندن کی دسمبر 2022 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لندن کا شمار دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
لندن میں 2019 میں میئر صادق خان نے وائلنس ریڈکشن یونٹ (تشدد میں کمی لانے کا یونٹ) قائم کیا تھا، جس کا مقصد شہر کو محفوظ بنانا ہے۔
پاکستانی سیاست پر تبصرے سے گریز
لندن کے میئر صادق خان کے والدین 1960 کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے، انٹرویو کے دوران انہوں نے پاکستان کی سیاست پر تبصرہ کرنے سے اجتناب برتتے ہوئے کہا کہ ’لندن کے میئر کی حیثیت سے دیگر ممالک میں سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا: ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں جمہوری اصولوں، شہری آزادیوں کے تحفظ اور قانونی عمل کی حمایت کرتا ہوں- چاہے لندن میں ہو، برطانیہ میں یا دنیا کے دیگر ممالک۔‘
صادق خان کی میئرشپ کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قائم عالمی نیٹ ورک سی 40 کے چیئرمین بھی رہے اور اس دوران لندن کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔
انہوں نے کہا: ’میں ایک نیا شائع شدہ مصنف بھی ہوں‘ اور انہیں لگتا ہے کہ بطور مصنف شاید ان کی والدہ کو ان پر سب سے زیادہ فخر ہو گا۔
صادق خان نے اپنی شائع کتاب کو ’بریتھ: ٹیکلنگ دی کلائمیٹ ایمرجنسی‘ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے اپنے عزم کو دہرایا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے کوششوں پر زور
صادق خان کے مطابق انہوں نے پاکستان اور دیگر ایسے ممالک، جنہیں ’گلوبل وارمنگ‘ کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرہ ہے، عدم استحکام کو روکنے کے لیے مزید کثیرالجہتی اقدامات پر زور دیا ہے۔
صادق خان عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر کھل کر بات کرنے والے عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا: ’میں تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان جیسے ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کے زندگی پر اثرات کی (صف میں) فرنٹ لائن پر ہیں اور اگر ہم دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مزید کثیر الجہتی تعاون کی ضرورت ہے۔‘
پاکستان کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے اور ماحول کے لیے خطرناک کاربن گیس کے اخراج میں اس کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جن ممالک کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اس فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر ہے۔
ماحولیات اور ترقی سے متعلق عالمی بینک کی 2022 کی رپورٹ میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق شدید موسمی صورت حال، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی کے سبب 2050 تک پاکستان کی ترقی کی شرح نمو یعنی ’جی ڈی پی‘ میں 20 فیصد کمی کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسی صورت حال سے معاشی ترقی اور غربت میں کمی لانے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ سال تباہ کن سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، لگ بھگ تین کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنی پڑی۔
اتنی بڑی تباہی کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان میں کوئی قابل ذکر کوششیں دیکھنے کو نہیں ملیں کیوں کہ اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کو سیاسی بحران کا سامنا رہا۔
اگرچہ جب عمران خان اقتدار میں تھے تو اس وقت بھی پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا تھا لیکن مئی میں ان کی متنازع گرفتاری کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ گیا، جس سے رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں شرح مہنگائی 38 فیصد تک جا پہنچی۔