پاکستانی کرکٹ کے روز و شب ایشیا کپ کے بعد بڑے ہنگامہ خیز رہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
ایک جانب ان خطوط کا کافی چرچا رہا جو بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کو بھیجے ہیں جن میں انہیں یہ یاد دلایا جاتا رہا ہے کہ وہ چار مہینے کے لیے کرکٹ بورڈ میں آئے ہیں اور ان کی سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین کا انتخاب اور بورڈ آف گورنرز کی تشکیل ہے۔
یہ معاملہ عدالتوں میں بھی زیرسماعت ہے۔ دوسری جانب ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد یہ سوال سب کے ذہنوں میں تھا کہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں کیا بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ کون باہر ہوگا اور کونسا نیا کھلاڑی ٹیم میں آئے گا؟
ان چند دنوں کے دوران سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص چیف سلیکٹر بنا ہوا تھا اور اپنی پسند ناپسند کے مطابق ٹیم کی سلیکشن ایسے کررہا تھا جیسے اسی کی منتخب کردہ ٹیم ورلڈ کپ میں جائے گی۔
سوشل میڈیا پر سلیکشن کے اس طوفان کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی خاموشی نہیں رہی تھی کیونکہ ورلڈ کپ سکواڈ کو حتمی شکل دینے سے پہلے ایشیا کپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری تھا جس کے لیے دو روز تک اجلاس چلتا رہا اس دوران یہ خبر بھی آئی کہ پی سی بی کی ٹیکنیکل کمیٹی کے رکن محمد حفیظ نے اپنی تجاویز نہ مانے جانے پر کمیٹی کو الوداع کہہ دیا۔
اگرچہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم سلیکشن پر کپتان اور چیف سلیکٹر کے درمیان اتفاق ٹیم کی کولمبو سے واپسی کے فوراً بعد ہی ہوچکا تھا لیکن اس کا باضابطہ اعلان جمعہ کے روز کیا گیا۔ اس سے قبل ابتدائی ٹیم ایشیا کپ کے دوران ہی آئی سی سی کو بھیج دی گئی تھی لیکن اسے میڈیا کی زینت اس لیے نہیں بنایا گیا کہ اگر کوئی کھلاڑی ڈراپ ہوتا ہے تو اس کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔
پہلے یہ شور مچا ہوا تھا کہ ورلڈ کپ کی ٹیم کا اعلان کب ہوگا؟ اور اب اس بات پر شور ہے کہ اس میں فلاں کھلاڑی کیوں شامل ہے اور فلاں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ تو ان تمام باتوں کا جواب چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ٹیم کا اعلان کرتے وقت پریس کانفرنس میں دے دیا ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور عالمی ایونٹ کی وجہ سے تجربہ کار کھلاڑیوں پر ہی اعتماد برقرار رکھا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ چار سال قبل 2019 کے عالمی کپ کے موقع پر بھی انضمام الحق چیف سلیکٹر تھےاور اس وقت جو ٹیم ابتدائی طور پر آئی سی سی کو دی گئی اس میں بعد میں تین تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ جنید خان، فہیم اشرف اور عابدعلی کو ڈراپ کرکے ٹیم میں وہاب ریاض محمد عامر اور آصف علی کو شامل کیا گیا تھا تاہم اس مرتبہ صرف ایک بڑی تبدیلی عمل میں آئی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ فاسٹ بولر نسیم شاہ کندھے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہیں اور انہیں آپریشن کا مشورہ دیا گیا ہے۔
نسیم شاہ کی جگہ ٹیم میں جس کھلاڑی کو جگہ ملی ہے وہ ہیں حسن علی۔ لیکن ان کی سلیکشن کے حق میں اور خلاف بہت زیادہ تبصرے ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن علی غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک کرکٹر ہیں۔ وہ کبھی دنیا کے نمبر ایک ون ڈے بولر بھی رہے ہیں۔ چیمپیئنز ٹرافی کے بہترین کرکٹر بھی بنے اور آئی سی سی کی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیموں میں بھی شامل کیے گئے اس کے علاوہ انہوں نے آئی سی سی کے بہترین ایمرجنگ کرکٹر کا ایوارڈ بھی جیتا لیکن پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ فٹنس اور فارم کے مسائل سے دوچار ہونے کے سبب ان کی کارکردگی کا گراف نیچے آتا چلا گیا۔
ورلڈ کپ سکواڈ میں حسن علی کی شمولیت کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ ان کا تجربہ دیگر بولرز سے کہیں زیادہ ہے لیکن وہ آخری مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل گزشتہ سال کسی متاثرکن کارکردگی کے بغیر کھیلے تھے۔
اس سال وہ پاکستان کے ڈومیسٹک سیزن میں کوئی میچ نہیں کھیلے ہیں البتہ انگلش کاؤنٹی وارک شائر کی طرف سے چھ فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے 24 وکٹیں لینے کے ساتھ ساتھ دو نصف سنچریاں بھی بنائی ہیں اس کے علاوہ انگلینڈ کی ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کرکٹ میں انہوں نے پانچ میچوں میں نو وکٹیں حاصل کی تھیں جس کے بعد لنکا پریمیئر لیگ کھیلتے ہوئے ان کے بائیں ہاتھ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی۔
حسن علی کے لیے پچھلا ورلڈ کپ خاصا مایوس کن رہا تھا جس میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف چار اوورز میں 39 رنز دے کر کوئی وکٹ نہیں لی۔ انگلینڈ کے خلاف 66 رنز دے کر کوئی وکٹ نہ لے سکے۔
آسٹریلیا کے خلاف 67 رنز دے کر ایک وکٹ اور پھر انڈیا کے خلاف 84 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی تھی جبکہ ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بھی وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے تھے اور چاروں میچوں میں 50 سے زائد رنز دیے تھے جن میں سب سے خراب بولنگ 81 رنز کے عوض ایک وکٹ تھی لہذا اب یہ ورلڈ کپ یقینی طور پر حسن علی کے لیے بہت بڑا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے سلیکشن کو درست ثابت کریں۔
نسیم شاہ کا ان فٹ ہوجانا پاکستان کے نقطۂ نظر سے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ورلڈ کپ میں نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کے پیس اٹیک پر دنیا بھر کی نظریں تھیں لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نسیم شاہ کی غیرموجودگی میں شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف مکمل فٹ رہتے ہوئے کس طرح کی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
نسیم شاہ کی انجری سے متعلق کئی باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ آیا یہ ورک لوڈ کا نتیجہ ہے یا میڈیکل پینل کی مبینہ غفلت کی وجہ سے ہوا ہے لیکن جو کچھ بھی ہوا ہے ظاہر ہے اس کا بہت بڑا نقصان پاکستانی ٹیم کو پہنچا ہے۔ اس سے قبل ہم شاہین شاہ آفریدی کی فٹنس کا معاملہ بھی بگڑتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس وقت فاسٹ بولر محمد حسنین اور احسان اللہ بھی ان فٹ ہیں یہی وجہ ہے کہ سلیکٹرز کو حسن علی کو فوقیت دینی پڑی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کرکٹ بورڈ اب یہ کہہ رہا ہے کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ اور فرنچائز لیگ کرکٹ میں توازن رکھنے کی غرض سے اپنے کھلاڑیوں کو این او سی دینے کی پالیسی پر مزید غور کرے گا۔ یہ بات درست ہے کہ جس تیزی سے اس وقت ہمارے کرکٹرز بیرون ملک لیگ کرکٹ کھیل رہے ہیں ان کی فٹنس اس وقت ایکسپوز ہوجاتی ہے جب ان کے پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا وقت آتا ہے۔
ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل ایک اور کھلاڑی کی کارکردگی پر سب کی نظریں ہوں گی اور وہ ہیں شاداب خان۔
شاداب خان ایک مکمل پیکیج ہیں جو کھیل کے تینوں شعبوں میں اپنی مہارت دکھاتے آئے ہیں لیکن ایشیا کپ میں نیپال کے خلاف چار وکٹیں لینے کے بعد انڈیا اور سری لنکا کے خلاف اہم میچوں میں ان کی بولنگ متاثرکن نہیں رہی اور وہ توقعات کے مطابق مڈل اوورز میں وکٹیں لے کر حریف ٹیم پر دباؤ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یہ ورلڈ کپ حسن علی کی طرح شاداب خان کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہو گا۔
امتحان تو فخرزمان کا بھی ہے جنہوں نے اگرچہ اسی سال ون ڈے انٹرنیشنل میں لگاتار تین سنچریاں بنائی ہیں لیکن آخری دس میچوں میں رنز ان سے روٹھے رہے ہیں۔
اور آخر میں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان نے ورلڈ کپ کے 15 رکنی سکواڈ میں ایک ہی وکٹ کیپر محمد رضوان کو شامل کیا ہے۔ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد حارث ٹریولنگ ریزرو میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی میچ میں رضوان ان فٹ ہوکر وکٹ کیپنگ نہ کرپائے تو ٹیم میں شامل کس کھلاڑی کو ان کی جگہ فوری طور پر وکٹ کیپنگ کرنی ہو گی؟ کیونکہ ٹریولنگ ریزرو محمد حارث ان کی جگہ کیپنگ نہیں کر سکتے انہیں سکواڈ میں شامل کرنے کے لیے ٹورنامنٹ کی ٹیکنیکل کمیٹی کی اجازت درکار ہوگی اور وہ جس کی جگہ ٹیم میں آئیں گے وہ کھلاڑی پھر دوبارہ ورلڈ کپ نہیں کھیل سکے گا۔
اگر محمد حارث 15 رکنی سکواڈ میں شامل ہوتے تو وہ رضوان کے کسی میچ کے دوران ان فٹ ہوجانے کی صورت میں میدان میں آکر کیپنگ گلووز سنبھال سکتے تھے۔