سلمان رشدی کا نیا ناول ’کشوٹی‘ حال ہی میں بُکر انعام کے لیے لانگ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ وسیع ناول رشدی کے مشہور ناول ’مڈنائٹ چلڈرن‘ کی طرح سکوپ میں بڑا ہے۔ اگر ’مڈنائٹ چلڈرن‘ ہندوستان کی آزادی اور پھر تقسیم کی تمثیل تھی تو ’کشوٹی‘ اس حد تک چلا گیا ہے کہ وہ مصنف کی موت کو تمام دنیا کے خاتمے سے ملا دیتا ہے۔
’کشوٹی‘ ایک بھارتی شخص کی کہانی ہے جو امریکہ میں قیام پذیر ہے اور جس کے زندگی کے سال تیزی سے گزر رہے ہیں۔ وہ ادویات کا چلتا پھرتا سیلزمین ہے۔ دل کے دورے کے بعد اس کی حقیقت پر گرفت ختم ہو جاتی ہے اور اسے ریلٹی ٹی وی کا نشہ ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اوپرا جیسی خوبصورت بھارتی ٹاک شو میزبان سلمہ آر (ہاں واقعی) کے ساتھ ہوگا۔ رشدی کا یہ ناول ہسپانیوی مصنف سروانٹس کے ڈان کیہوٹی کی جدید شکل ہے، لہٰذا کشوٹی یا شیخ چلی اپنے آپ کو ناول کے ایک کردار سلمہ کی محبت کے لائق ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس سفر پر اپنے ہمراہ کشوٹی ایک خیالی بیٹے سانچو کی تخلیق کرتا ہے۔ لیکن سانچو جلد ہی اس جستجو میں کہ وہ ایک حقیقی لڑکا بن پائے پینوکیو طرز کے مشن پر چل پڑتا ہے۔
اس بےایمان ہیرو کے بیانیے کے ساتھ جو انہیں امریکہ لے جاتا ہے، جو وہاں کی موجودہ نسل پرستی، پاپولزم اور نشے کے بحران ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رشدی ایک دوسری کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔ ’کشوٹی‘ دراصل ایک ایسا ناول ہے جو ایک بھائی لکھ رہا ہے، وہ ایک ایسا مصنف ہے جو عموماً سنسنی خیز تحریریں تخیلق کرتا ہے۔ ہم اس بھائی کے بیانیے کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں جب وہ اپنے ہی ناراض بیٹے اور بہن سے رابطہ کرتا ہے اور کتاب اختتام تک پہنچاتا ہے۔ دونوں کہانیاں ایک دوسرے کی عکاسی کرتی ہیں اور تیزی سے غیرمستحکم انداز میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔ اس کی تمام پرتیں دلچسپ اور زیرک ہیں۔
رشدی کے ناول میں بھی بہت سے باتیں ڈان کیہوٹی کی کہانی کے بیان سے زیادہ ہیں۔ یہ ہمارے حالات حاضرہ کے جعلی خبروں، سچ سے آگے، ٹرمپ کی ثقافتی تحریک پر طنز ہے جہاں حقیقت کا تصور ختم ہو رہا ہے۔ یہ ایک سائنس فکشن ناول ہے، جاسوسی ناول ہے، سفرنامہ ہے، یہ جادوئی حقیقت نگاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ماحولیاتی تبدیلی کی تمثیل ہے، اور تارکین وطن مخالف دور میں ایک تارک وطن کی کہانی ہے۔ یہ ایک پیار محبت کی کہانی ہے جو خاندانی ڈرامے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تیز رفتار پھلجھڑی ناول ممکن نہیں کہ آپ کو حیرت زدہ نہ کر دے لیکن اس کے اندر سانس گھونٹ دینے والا دھواں بھی ہے۔
کیا آپ وضاحتوں کی اس لمبی فہرست سے تنگ آ گئے ہیں؟ مجھ پر یقین کریں یہ رشدی کے لانگ لسٹ ناول کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو مثالوں اور تشریحات کی وجہ سے بوجھل ہو جاتا ہے۔
وہ بیٹلز اور پال سائمن، اینڈریو مارول اور ویلم وڈسورتھ، شیکسپیئر اور آرتھر ملر، ’ڈرائیونگ مس ڈیزی‘ اور ’مین ان بلیک‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں نہ ختم ہونے والا ریئلٹی ٹی وی، دہرے کردار اور سائی فائی عجوبوں کا ورد ہے۔ اگر کسی چیز کی پانچ تشریحات کی جا سکتی ہیں تو وہ ایک پر اکتفا نہیں کرتے۔ پانچ۔ اوہ بہترین کم بیانی!
ایک مقام پر رشدی نے خراٹوں کی 41 احمقانہ قسمیں گنوائی ہیں جیسے کہ ’آتش بازی کا مظاہرہ، رش کے وقت غار، ٹریفک جام۔۔۔‘ جو سب تھکا دینے والی محسوس ہوتی ہیں، خصوصاً ضرورت سے زیادہ لکھے گئے ناول کے پہلے نصف میں۔ لیکن جیسے جیسے کتاب آگے بڑھتی ہے شکر ہے کہ ان کا یہ خبط کم ہو جاتا ہے۔
اور جب رشدی موجودہ ثقافت پر گرما گرم باتوں کو حیرت انگیز طور پر اکٹھا کرتے ہیں وہیں وہ اس امکان کو نہیں چھوڑتے کہ پڑھنے والا انہیں سمجھ جائے۔ مثال کے طور پر صفحہ نمبر 356 پر وہ وضاحت کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب میں کیا کرنا چاہتے ہیں جو وہ لکھ رہے ہیں: ’جس دنیا میں وہ رہتے ہیں اس کی ناول میں تنزلی ماحول، سیاست، سماج، اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ساتھ ہے۔‘ ہاں زبردست ۔ لیکن یہ تقابلی جائزہ تو پچھلے 356 صفحات میں سے کئی پر واضح تھا۔ بھائی یا رشدی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ یہ سب بتائیں۔
’کشوٹی‘ اس وقت بہترین ہوتا ہے جب وہ سماجی مسائل پر اپنی خوشی کے لیے مزاح کی بجائے انسانی دل، محبت اور موت جیسے بنیادی حقائق کے معملات کی بات کرتا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتام کی جانب انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے۔ آخری حصہ ایک تیز دوڑ ہے: کردار، بیانیے اور دنیا کے ٹکراؤ اور زبردست انداز میں خاتمے کی۔ تاہم رشدی اس سب پر قابو رکھتے ہیں۔ لیکن یہ وہاں تک پہنچنے کا ایک طویل سفر ہے۔
ناشر: جونتھن کیپ۔ قیمت: 18.99 برطانوی پاؤنڈ
© The Independent