امن کا نوبیل انعام جیل میں قید ایران کی نرگس محمدی کے نام

ناروے کی نوبیل کمیٹی کے مطابق یہ فیصلہ ایران میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جبر کے خلاف نرگس محمدی کی جدوجہد، انسانی حقوق اور تمام لوگوں کے لیے آزادی کے فروغ کے لیے ان کی جدوجہد پر کیا گیا۔

دو اکتوبر 2023 کو نرگس محمدی فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کی گئی انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایرانی کارکن نرگس محمدی کی نامعلوم مقام پر لی گئی تصویر (نرگس محمدی فاؤنڈیشن/ اے ایف پی)

ایران میں خواتین پر ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کرنے پر جیل میں قید انسانی حقوق کی سرگرم کارکن نرگس محمدی کو جمعے کو 2023 کا امن کا نویبل انعام دیا گیا ہے۔

محمدی کو یہ ایوارڈ ایک سال قبل نوجوان ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی حراست کے دوران موت کے بعد ایران بھر میں ہونے والے مظاہروں کے بعد دیا گیا۔

ناروے کی نوبیل کمیٹی کی جانب سے 2023 کے نوبیل امن انعام کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ فیصلہ ایران میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جبر کے خلاف نرگس محمدی کی جدوجہد، انسانی حقوق اور تمام لوگوں کے لیے آزادی کے فروغ کے لیے ان کی جدوجہد پر کیا گیا۔

 

امینی کو خواتین کے لیے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

51 سالہ صحافی اور سرگرم کارکن محمدی نے گذشتہ دو دہائیوں کا زیادہ تر حصہ خواتین کے لیے لازمی حجاب اور سزائے موت کے خلاف اپنی مہم کی وجہ سے جیل کے اندر اور باہر گزارا۔

وہ ایرانی انسانی حقوق کی وکیل شیریں عبادی کی قائم کردہ ’ڈیفنڈرز آف ہیومن رائٹس سینٹر‘ کی نائب صدر ہیں۔ ان کو 2003 میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔

اوسلو میں ناروے کی نوبیل کمیٹی کے سربراہ بیریٹ ریس اینڈرسن نے کہا کہ ’انہوں (نرگس عبادی) نے جرات مندانہ جدوجہد کے لیے زبردست ذاتی قیمت ادا کی۔ حکومت نے انہیں مجموعی طور پر 13 بار گرفتار کیا، پانچ بار مجرم قرار دیا اور مجموعی طور پر 31 سال قید اور 154 کوڑوں کی سزا سنائی۔‘

اس موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اینڈرسن نے محمدی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا اور کہا ’اگر ایرانی حکام نے درست فیصلہ کیا تو وہ انہیں رہا کر دیں گے۔ لہٰذا وہ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے خود موجود ہوسکتی ہیں جس کی ہم بنیادی طور پر امید کرتے ہیں۔‘

محمدی نے گذشتہ ماہ جیل سے لکھے گئے ایک خط میں اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حالیہ مظاہروں نے ’ایران میں جمہوریت، آزادی اور مساوات حاصل کرنے کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔‘

16 ستمبر کو امینی کی برسی کے موقعے پر تہران کی اوین جیل میں ان کے ساتھ قید تین دیگر خواتین نے اپنے حجاب جلائے۔

عالمی اقتصادی فورم کی صنفی مساوات کی درجہ بندی میں ایران 146 ممالک میں سے 143 ویں نمبر پر ہے۔

ایرانی حکام نے گذشتہ سال ’عورت، زندگی، آزادی‘ کی تحریک کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔

ایران ہیومن رائٹس کے مطابق سکیورٹی فورسز نے 68 بچوں اور 49 خواتین سمیت مجموعی طور پر 551 مظاہرین کو جان سے مارا اور ہزاروں کو گرفتار کیا۔

اس کے بعد سے یہ تحریک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔

ایک سال پہلے تک جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اب خواتین خطرات کے باوجود، خاص طور پر تہران اور دیگر بڑے شہروں میں، حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر نکلتی ہیں۔

ایران کی حکومت متعدد موقعوں پر ان مظاہروں کو بیرونی سازش قرار دیتی آئی ہے۔

1901 سے 2022 تک 140 افراد کو 103 مرتبہ امن انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ یہ ان چھ انعامات میں سے ایک ہے جو سویڈش کیمیا دان الفریڈ نوبیل نے 1895 میں قائم کیا تھا۔

دیگر ایوارڈز کی کیٹیگریز میں ادب، فزکس، کیمسٹری، فزیالوجی یا میڈیسن اور اکنامک سائنسز شامل ہیں، جن کا اعلان رواں ہفتے پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔

گذشتہ سال کا امن انعام بیلاروس کے انسانی حقوق کے وکیل ایلس بیالٹسکی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی دو تنظیموں روسی گروپ میموریل اور یوکرین کے سینٹر فار سول لبرٹیز کو دیا گیا تھا۔

کامیاب شخصیت کا تعین کرنا کسی کے لیے بھی انتہائی مشکل رہا ہے۔ یہ کافی دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے اور اکثر نتیجہ توقعات سے مختلف سامنے آتا ہے۔

فاتح کا انتخاب بالآخر ناروے کی پارلیمنٹ کی جانب سے مقرر کردہ پانچ افراد پر مشتمل نوبیل کمیٹی کرتی ہے۔ کمیٹی اپنے فیصلے کی بنیاد 31 جنوری تک موجودہ اور سابق کمیٹی ممبران، قومی پارلیمان، حکومتوں، ماضی میں امن انعام یافتہ افراد، کچھ شعبوں کے پروفیسرز، امن اور بین الاقوامی امور کے تحقیقی مراکز کے ڈائریکٹرز اور بین الاقوامی عدالتوں کے ارکان کی نامزدگیوں پر رکھتی ہے۔

رواں برس جن شخصیات کو نوبیل امن انعام کا متوقع حق دار قرار دیا گیا تھا، ان میں یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی، روسی اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی اور چینی انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن الہام توہتی بھی شامل تھے۔

وولودی میر زیلنسکی

 امریکی جریدے ٹائمز کے مطابق یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کو سرفہرست قرار دیا گیا تھا۔ انہیں 2022 میں ٹائم میگزین کا ’پرسن آف دی ایئر‘ بھی قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وولودی میر زیلنسکی عالمی سطح پر ایک اہم کردار رہے ہیں اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے فروری 2022 میں شروع ہونے والے یوکرین پر حملے کے خلاف لڑائی میں بین الاقوامی اتحادیوں اور امداد کو اکٹھا کرتے رہے

میگزین کے مطابق اگرچہ سٹے باز وولودی میر زیلنسکی کے حق میں ہیں لیکن ماہرین ان کے امکانات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں۔

ٹائمز کی یہ فہرست Nicerodds.co.uk بیٹنگ سائٹ کے ساتھ ساتھ پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو کے ڈائریکٹر ہنریک اردال کی سالانہ شارٹ لسٹ پر مبنی تھی۔

لیکن خود ہنریک اردال نے کہا: ’اس حقیقت کے باوجود کہ زیلنسکی اور یوکرین ایک منصفانہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں ان کے مقصد سے ہر طرح کی ہمدردی ہے، میں کہوں گا کہ نوبیل کمیٹی کے لیے ایک ایسے شخص کو انعام دینا انتہائی مشکل ہوگا، جو بین الریاستی جنگ میں مصروف ہے۔‘

الیکسی نوالنی

اس فہرست میں دوسرے نمبر پر بھی پوتن مخالف سیاست دان الیکسی نوالنی کو قرار دیا گیا تھا۔

47 سالہ الیکسی نوالنی، روس کے اپوزیشن سیاست دان ہیں، جو مبینہ طور پر صدر ولادی میر پوتن کے زہر سے مرتے مرتے بچے تھے اور اب قید میں ہیں۔

الہام توہتی

اس فہرست میں تیسرے نمبر پر الہام توہتی کا نام تھا۔ اپنی قید سے قبل، الہام توہتی بیجنگ کی منزو یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر تھے، جہاں وہ چین کی اقلیتی اویغور برادری سے متعلق امور میں مہارت رکھتے تھے۔

انہوں نے چینی زبان کی ویب سائٹ اویغور آن لائن قائم کی، جو مسلم اقلیتی گروپ کو درپیش ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کو دستاویزی شکل دینے کے لیے وقف ہے۔ دو سال بعد حکام نے اس ویب سائٹ کو بند کر دیا۔

الہام توہتی، 2009 میں سنکیانگ میں اویغور اور ہان چینیوں کے درمیان ہونے والے فسادات کے بعد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ انہیں کچھ ہی دیر بعد رہا کر دیا گیا تھا لیکن تعلیمی میدان اور اویغور برادری کے سب سے نمایاں کارکن کو علیحدگی پسندی پر اکسانے کے الزام میں جنوری 2014 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ماضی کے 10 فاتحین کی فہرست

2023 کے فاتح کے اعلان سے قبل نوبیل امن انعام کے ماضی کے 10 فاتحین کی ایک فہرست یہ ہے۔
2022: ایلس بیالٹسکی (بیلاروس)، میموریل (روس) اور سینٹر فار سول لبرٹیز (یوکرین)
2021: ماریا ریسا (فلپائن / امریکہ) اور دمتری مراتوف (روس)
2020: اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی)
2019: ابی احمد علی (ایتھوپیا)
2018: ڈینس مکویج (ڈی آر کانگو) اور نادیہ مراد (عراق)
2017: جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم (آئی سی اے این)
2016: خوان مینوئل سانتوس (کولمبیا)
2015: نیشنل ڈائیلاگ کوارٹیٹ (تیونس)
2014: کیلاش ستیارتھی (بھارت) اور ملالہ یوسف زئی (پاکستان)
2013: کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کے لیے سرگرم تنظیم (او پی سی ڈبلیو)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین