سندھ کے صحرائے تھر کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے استاد سکھ رام داس 75 سال کی عمر میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قانون سے ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس وقت سیکنڈ ایئر کے طالب علم ہیں۔
تھرپارکر کی تحصیل ڈیپلو کے گاؤں ہیلاریو پیر کے رہائشی سکھ رام ہائی سکول میں بطور استاد فرائض سرانجام دینے اور محکمہ تعلیم میں مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔
سندھ حکومت نے حال ہی میں انہیں اپنے گاؤں میں تعلیم کا شعور دینے پر ’بہترین استاد‘ کے ایوارڈ سے نوازا۔
پانچ اکتوبر کو کراچی میں نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، نگران وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت مدد علی سندھی، میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب اور دیگر نے انہیں یہ ایوارڈ دیا۔
سکھ رام نے بتایا کہ ان کا خاندان 1835 سے گاؤں ہیلاریو پیر میں رہائش پذیر ہے اور ان کے آباؤ اجداد کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔
ان کے مطابق: ’صحرائے تھر کے نواحی علاقوں کے رہائشیوں کے پاس چند ایکڑ پر مشتمل چھوٹے چھوٹے کھیت ہوتے ہیں، جہاں وہ بارش کے پانی سے مونگ، گوار پھلی، باجرہ اوردیگر فصلیں کاشت کرتے ہیں۔‘
’قیام پاکستان کے بعد مقامی لوگوں کا ایک دوسرے کے کھیتوں پر قبضہ کرنا عام بات تھی۔ ان حالات میں بھی تھر کے پرامن لوگ اپنی زمینوں کی واپسی کے لیے لڑائی کی بجائے قانونی چارہ جوئی کو ترجیح دیتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے والد چاہتے تھے کہ میں کچھ نہ کچھ تعلیم حاصل کروں تاکہ یہ رقم بچانے کے لیے مقدمات کے دستاویز خود لکھ سکوں۔
’اس وقت ہمارے گاؤں میں سکول نہیں تھا تو میں گاؤں سے کئی کلومیٹر دور ٹنڈو جان محمد میں پڑھنے گیا اور وہاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔'
سکھ رام نے گریجویشن کے لیے سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ کیمسٹری میں داخلہ لینا چاہا، مگر خاندان کی مالی حالات کے باعث انہیں مجبوراً جونیئر سکول ٹیچر کی نوکری کرنا پڑی۔
1971 میں دوران ملازمت ہی انہوں نے آرٹس میں گریجویشن مکمل کی، جس کے بعد انہیں ترقی دے کر ہائی سکول ٹیچر اور بعد میں ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔
کچھ عرصے بعد سکھ رام نے سب ڈویژنل آفیسر اور بعد میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میرپورخاص کے طور پر خدمات انجام دیں۔
’بچپن سے مقدمات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کی وجہ سے مجھے قانون کی سمجھ بوجھ حاصل ہو گئی تھی۔
’میں ہمیشہ ایل ایل بی کرنا چاہتا تھا مگر وقت نہیں ملا تو اب ریٹائرمنٹ کے بعد ایل ایل بی میں داخلہ لے کر اپنا شوق پورا کررہا ہوں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے گاؤں میں سرکاری سکول نہ ہونے کے باعث بچوں کو کئی کلومیٹر پیدل جاکر تعلیم حاصل کرنی پڑتی تھی۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے گاؤں میں سرکاری سکول کے قیام کے لیے اپنا ذاتی پلاٹ عطیہ کیا اور ان کی کاوشوں سے آج گاؤں میں تعلیم عام ہے۔
گاؤں کے کئی افراد اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام اور معتدد نوجوان بیرون ممالک یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
سکھ رام کے متعدد شاگردوں میں کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر حفیظ اللہ تالپور بھی شامل ہیں، جو ٹنڈو جان محمد کے تاریخی کالج حاجی خدا بخش خان تالپور بوائز کالج ٹنڈو جان محمد میں پڑھاتے ہیں اور جنھوں نے حال ہی میں سندھ یونیورسٹی سے اسلامک سٹیڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر حفیظ اللہ تالپور نے بتایا کہ ’سکھ رام داس نے مجھے مڈل اور ہائی سکول میں کئی سال پڑھایا۔ وہ ہمیں شفقت اور ایمان داری سے اپنے بچوں کی طرح پڑھاتے تھے۔
’سکھ رام داس کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ اپنے شاگردوں کے مستقبل کی فکر تھی۔ انہوں نے ہمارے اندر امید جگائی۔ آج ان کے سینکڑوں شاگرد بڑے بڑے عہدوں پر کام کرتے ہیں۔‘
حفیظ اللہ تالپور کے دو بھائیوں، جنھوں نے خود سکھ رام سے تعلیم حاصل کی، سرکاری محکموں میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
حفیظ اللہ تالپور کے مطابق: ’ہم سکھ رام داس کی آج بھی دل سے عزت کرتے ہیں اور ان سے اکثر ملتے رہتے ہیں۔‘