کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہوا اور ایشین گیمز اختتام کو پہنچ گئے۔ ان ممالک میں جہاں کرکٹ نمبر ون کھیل نہیں ہے وہاں یقیناً ایشین گیمز میں ان کے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی ان کے میڈیا کی توجہ کا مرکز ضرور بنی ہو گی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
لیکن اگر بات پاکستان کی ہو تو اس کے کھلاڑیوں کی طرف سے ایسی کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں رہی جس پر ہمارے ٹی وی چینلز کی سکرین سرخ ہوتی اور بریکنگ نیوز میں کسی شاندار کارکردگی کا چرچا ہوتا۔
مجھے اکثر دو باتیں سننے کو ملتی ہیں، پہلی یہ کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کی کوئی بات ہی نہیں کرتا، میڈیا بھی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کو اہمیت نہیں دیتا۔ اس بات کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ اسی میڈیا نے کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں میں بھی شاندار پرفارمنس کو نمایاں جگہ دی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال ارشد ندیم اور نوح دستگیر بٹ ہیں جب انہوں نے کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغے جیتے تھے تو کوئی بھی میڈیا پلیٹ فارم ان کی شاندار کارکردگی کو نمایاں طور پر پیش کرنے میں پیچھے نہیں رہا تھا۔
اسی طرح ٹوکیو اولمپکس کے موقع پر بھی ارشد ندیم اور طلحہ طالب کی عمدہ کارکردگی شہ سرخیوں میں رہی تھیں لیکن اگر ہاکی ٹیم انڈیا کے ہاتھوں دس گول کی ہزیمت سے دوچار ہو گی یا ہمارے کھلاڑی پہلے راؤنڈ میں ہار کر صرف سیلفیاں بنانے میں مصروف نظر آئیں گے اور ان کے چہروں پر دکھ اور افسوس کے بجائے مسکراہٹیں سجی ہوں گی تو ایسی صورت میں میڈیا کیا یہ کہے گا کہ واہ کیا شاندار پرفارمنس تھی؟
کرکٹ کا دوسرے کھیلوں سے موازنہ ممکن نہیں کیونکہ کرکٹ کا کھیل خود اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ اسے ملک میں برسراقتدار آنے والی کسی بھی حکومت کی مالی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ اپنا خرچ خود اٹھاتا ہے بلکہ کرکٹ کی مالی حالت دیکھ کر سیاست دانوں کے منہ میں پانی آجاتا ہے اور وہ اس کی باگ ڈور سنبھالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
دوسری بات جو حیران کن ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے وہ یہ کہ ایشین گیمز ہوں یا ساؤتھ ایشین گیمز، ان کھیلوں میں شرکت کرنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے یہ بات فخریہ طور پر سننے کو ملتی ہے کہ ہم نے وہاں جا کر مقابلوں میں حصہ لیتے ہوئے اپنا ذاتی ریکارڈ بہتر بنایا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر اس کا چرچا کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر مجھے ایسی متعدد ویڈیوز اور تصاویر نظر آئیں جن میں ہمارے خاتون اور مرد کھلاڑی جنہیں پہلے پہلے راؤنڈ میں شکست ہوئی وہ کسی شرمندگی کے احساس کے بجائے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ یہ لکھ رہے تھے ’ہانگزو، آپ کی میزبانی کا شکریہ۔‘
یہاں مجھےانٹرنیشنل باکسنگ کی قدآور شخصیت پروفیسر انورچوہدری کی یاد آ رہی ہے جو یہی بات کہا کرتے تھے کہ کیا ایشین گیمز اور ساؤتھ ایشین گیمز قومی ریکارڈ بنانے یا ان ریکارڈز کو بہتر بنانے کی جگہ ہیں؟ پرفیسر انور چوہدری کی ایک اور بات دل کو لگتی تھی کہ ہمارے کھلاڑیوں کی ان کھیلوں میں شرکت پر سوچ یہ ہوتی ہے کہ کسی سے بھی ہار جاؤ لیکن انڈیا سے مت ہارو۔ مطلب یہ کہ تمغہ جیتیں یا نہ جیتیں انڈیا سے نہیں ہارنا۔
ہانگزو میں منعقدہ 19 ویں ایشین گیمز میں پاکستان نے 24 کھیلوں میں حصہ لیا جس کے لیے 190 کھلاڑی بھیجے گئے اور ساتھ میں 72 آفیشلز بھی۔
آج تک اس بات پر دیانت داری سے سوچا اور عمل نہیں کیا گیا کہ صرف ان کھیلوں میں شرکت کی جائے جن میں اچھی کارکردگی کی توقع ہو۔ ہمارے سپورٹس کے کرتا دھرتا کھیل کے معیار کے بجائے تعداد پر ہمیشہ توجہ دیتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کئی کھیلوں میں کارکردگی ایسی ہوتی ہے کہ شرم کے مارے ان کا ذکر بھی نہ کیا جا سکے۔
اگر ان ایشین گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو یہ 2018 میں انڈونیشیا میں منعقدہ ایشین گیمز سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پچھلے ایشین گیمز میں پاکستان نے کانسی کے صرف چار تمغے جیتے تھے جبکہ ان کھیلوں میں 256 کھلاڑی شریک ہوئے تھے۔
اس مرتبہ ایشین گیمز میں پاکستان کی کل جمع پونجی چاندی کا صرف ایک اور کانسی کے دو تمغے ہیں۔ چاندی کا تمغہ اس نے سکواش کے مینز ٹیم ایونٹ میں جیتا۔ نور زمان انڈیا کے خلاف فیصلہ کن میچ میں جیت کے بہت قریب آ کر اس سے دور ہو گئے۔ پاکستان نے کانسی کا ایک تمغہ دس میٹر فائر پسٹل میں کشمالہ طلعت کی صورت میں جیتا جبکہ دوسرا کانسی کا تمغہ کبڈی ٹیم نے جیتا۔ اس طرح پاکستان 45 ممالک کے میڈل ٹیبل پر 30 ویں نمبر پر رہا ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ ارشد ندیم ان فٹ ہونے کے باعث جیولن تھرو ایونٹ میں حصہ نہ لے سکے۔ گزشتہ ایشین گیمز میں وہ کانسی کا تمغہ جیتے تھے لیکن اس بار وہ گولڈ میڈل کے لیے فیورٹ تھے۔ ارشد ندیم کو اپنے علاج پر مکمل توجہ دینی ہو گی، پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ ماضی قریب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان ایتھلیٹکس کے دو بڑوں کے تلخ تعلقات کے درمیان پھنسے رہے ہیں کہ ایک کی تعریف کی تو دوسرا ناراض۔
ایشین گیمز میں پاکستان کا آخری گولڈ میڈل 2014 میں خواتین کرکٹ ٹیم کی بدولت ملا تھا لیکن اس مرتبہ خواتین ٹیم کی کارکردگی بھی بہت مایوس کن رہی۔
اس سے زیادہ مایوس کن کارکردگی مردوں کی کرکٹ ٹیم نے دکھائی حالانکہ اس ٹیم میں سات کھلاڑی وہ تھے جنہیں انٹرنیشنل کرکٹ کا تجربہ تھا اور وہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ملا کر مجموعی طور پر میچز کھیل چکے تھے لیکن یہ ٹیم افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی ہارگئی۔
کرکٹ سے ہٹ کر آخری گولڈ میڈل پاکستان نے 2010 کے ایشین گیمز میں مینز ہاکی اور مینز سکواش میں حاصل کیے تھے لیکن اس مرتبہ ہاکی میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور وہ پانچویں نمبر پر آئی یعنی پچھلی بار جو کانسی کا تمغہ جیتا تھا اس سے بھی گئی گزری پرفارمنس۔ پاکستانی ہاکی ٹیم کی اس مایوس کن کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انڈیا کے خلاف اسے اپنی تاریخ کی بدترین شکست یعنی دو کے مقابلے میں دس گول کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔
ایشین گیمز میں صرف انڈیا کی ٹیم کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی عالمی رینکنگ نمبر تین ہے جبکہ جاپان جس نے پاکستان کو تین دو سے شکست دی اس کی عالمی رینکنگ 15 ویں ہے جبکہ پاکستان 16 ویں نمبر پر ہے یعنی دونوں میں زیادہ فرق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان پانچویں نمبر پر آیا اور جاپان نے انڈیا سے فائنل کھیلا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ہم انفرادی مقابلوں کی کارکردگی بھی دیکھیں تو کسی میں بھی کوئی ایسی کارکردگی نہیں نظر آتی کہ ان کھلاڑیوں کا ایشین گیمز میں حصہ لینے کا کوئی جواز نظر آئے بلکہ یہ شرکت برائے شرکت والا معاملہ نظر آتا ہے۔
اگر عقیل خان اور اعصام الحق قریشی 43 ۔43 سال کی عمر میں ٹینس کھیل رہے ہیں تو اس میں مجھے قصور ان کا نہیں بلکہ پاکستان ٹینس فیڈریشن کا نظر آتا ہے کہ اس نے ابھی تک کوئی ایسا نوجوان ٹیلنٹ تلاش ہی نہیں کیا جسے وہ اعتماد کے ساتھ ایشین گیمز میں بھیج سکے۔ آخر فیڈریشن کب تک عقیل خان اور اعصام الحق سے کام چلائے گی؟
باکسنگ ایک ایسا کھیل تھا جس میں پاکستان نے ماضی میں مجموعی طور پر چھ گولڈ میڈل جیت رکھے ہیں لیکن اب وقت کے ساتھ یہ تمغے بھی غائب ہوچکے ہیں۔
پاکستان سپورٹس بورڈ جو کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور کوچنگ کا ذمہ دار ہے دراصل وہی اس کھیل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یہ ادارہ سیاسی حکومتوں کی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے ہر دور میں بننے والے مختلف وزیروں کے تابع ہے۔
سپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل بھی ہر دور حکومت میں تبدیل ہوتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنی پسند کا ڈائریکٹر جنرل لاتی ہے۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتی ہے کہ کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور کوچنگ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ پاکستان سپورٹس بورڈ کی ذمہ داری ہے لیکن اس کی ماتحت مختلف کھیلوں کی فیڈریشنوں کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ وہ صرف حکومت کی گرانٹ کی محتاج بنی بیٹھی ہیں لیکن اپنے طور پر کوئی بھی کوشش نہیں کرتی ہیں کہ ان کے مالی حالات بہتر ہوں اور وہ خود بھی سپانسرز تلاش کریں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔