نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے: ایف بی آر

فیڈرل بورڈ اف ریونیو کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں چلنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ضبط کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ اف ریونیو(ایف بی آر) کا ہفتے کو کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں چلنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ضبط کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

یہ بات ایف بی آر کے ترجمان آفاق قریشی نے ہفتے کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہی۔

خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن اور بعض سابق قبائلی اضلاع میں چلنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو حکومت کی جانب سے ضبط کرنے کے حوالے سے ایک بار پھر خبریں گردش میں ہیں ایف بی آر نے ان فواہوں کی تردید کی ہے اور کہاں ہے کہ ان گاڑیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو مقامی زبان میں ’کابلی گاڑیاں‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ خبریں تین چار دن قبل بعض اخبارات اور نیوز چینلز پر ذرائع سے چلائی گئی تھیں کہ حکومت کی جانب سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان خبروں میں کسی حکومتی نمائندے کا حوالہ نہیں دیا گیا تھااور ذرائع سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں۔

جب ایف بی آر کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ ان گاڑیوں کو 2023 کے مالی سال شروع ہوتے ہی ایک سال کا وقت دیا گیا تھا، تو ایک سال بعد ان گاڑیوں کی مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا ہے تو اس کے جواب میں آفاق کا کہنا تھا کہ ’ایک سال ختم ہونے کے بعد بھی ابھی تک ہم نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘

ان افواہوں کے سامنے آنے کے بعد مالاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’تین چار دنوں سے کاروبار بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے کیوں کہ گاہک گاڑی خریدنے نہیں بلکہ یہی پوچھنے آتے ہے کہ ان گاڑیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔‘

مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع لوئر دیر کی تحصیل تیمرگرہ میں تقریباً 20 سالوں سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ شیرین حیات کا کہنا ہیں کہ ’ہر سال دو بعد اس طرح کی افواہیں پھیل جاتی ہیں، جن سے کاروباور پر بہت اثر پڑتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں بھی سوشل میڈیا پر پتہ چلا کہ حکومت نے اس طرح کا کوئی فیصلہ کیا ہے لیکن ہمیں حکومت، کسٹم حکام یا ایف بی ار کی جانب سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ہے لیکن ظاہری بات ہے کہ عام لوگ ایسے افواہوں کو سنجیدہ لے کر اس سے کاروبار متاثر ہوتا ہے۔‘

شیرین حیات نے بتایا کہ ’مالاکنڈ ڈویژن ٹیکس فری زون ہے اور یہاں پر یہ گاڑیاں قانونی طور پر چلتی ہیں، یہ جاپان اور متحدہ عرب امارات سے افغانستان سے مختلف راستوں سے یہاں لائی جاتی ہیں جس پر کوئی کسٹم ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔‘

شیرین حیات کے مطابق ’اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کو ان گاڑیوں کا یہی فائدہ ہے کہ کسٹم گاڑی یہاں کے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہیں تو نان کسٹم پیڈ گاڑی یہاں پر پانچ لاکھ سے 20 لاکھ تک آسانی سے مل جاتی ہیں۔‘

شیرین نے بتایا کہ ’کسٹم پیڈ 20 لاکھ کی گاڑی یہاں پر 10 لاکھ تک جبکہ 10 لاکھ کی گاڑی یہاں پر پانچ لاکھ تک مل جاتی ہے اور اس میں آلٹو گاڑی سے لے کر پراڈو اور کروزر تک کی گاڑیاں آتی ہیں۔‘

نان کسٹم ڈیوٹی پیڈ گاڑیاں اور ’دہشت گردی‘

ماضی میں وزرا کے بیانات کے مطابق حکومت نے مختلف اوقات میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوششیں کی ہیں اور حکومت کا ایک ہی موقف ہے کہ یہ گاڑیاں شدت پسند کارروائیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔

یہ گاڑیاں مالاکنڈ ڈیویژن کی ٹیکس فری زون کی حیثیت کی وجہ سے چلتی ہیں کیوں کہ یہاں پر ایف بی آر سمیت دیگر ٹیکس قوانین نافذ نہیں ہیں لیکن 2018 میں قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد ان گاڑیوں کا پانچ سال کی مہلت دی گئی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل معلومات کے مطابق حکومت کی 2023 تک کی مہلت ختم ہو چکی ہے لیکن جون 2023 میں اس میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے۔

اس سے قبل 2013 میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اجرا کیا گیا تھا، جس میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مالکان کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد رجسٹر کرانے کی اجازت مل گئی تھی۔

2018 میں حکومت کی جانب سے ایک مکینزم یہ بنایا گیا کہ ’ان گاڑیوں کے جرائم میں استعمال کو روکنے کے لیے متعلقہ پولیس سٹیشن میں رجسٹریشن کی جائے اور پولیس سٹیشن کی جانب سے ان گاڑیوں کو ایک رجسٹریشن نمبر بھی الاٹ کیا جاتا تھا۔‘

ان گاڑیوں کو مالاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں چلنے کی اجازت ہے تاہم یہ گاڑیاں ڈویژن سے باہر نہیں جاسکتی۔ یہ گاڑیاں کسی بھی ایکسائز ڈپارٹمنٹ سے رجسٹرڈ نہیں ہوتیں بلکہ2017  میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے یہ مکینزم بنایا گیا تھا کہ ان کو پولیس رجسٹر کرے گی۔

اس وقت کے صوبائی پولیس سربراہ ناصر خان درانی نے صوبائی حکومت کو ایک خط بھی لکھا تھا کہ ’نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال کی جاتی ہیں اس لیے ان کی رجسٹریشن کے لیے کوئی مکینزم بنایا جائے۔‘

نان کسٹم  پیڈ گاڑیوں کی تعداد کے بارے میں خاطر خواہ اعدادوشمار موجود نہیں تاہم سوات پولیس کے مطابق ’مالاکنڈ ڈویژن میں دو لاکھ سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں۔‘

ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں بعد میں ’کٹ گاڑیوں‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا جو قیمت میں عام نان کسٹم پیڈ گاڑی سے سستی ملتی ہیں۔

کٹ گاڑیاں کیا ہوتی ہیں؟

میر احمد تیمرگرہ بازار میں گاڑیوں کے مستری ہیں اور ’کٹ گاڑیوں‘ کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان گاڑیوں کو ’کٹ گاڑیاں‘ اس لیے کہا جاتا کیوں کہ یہ مختلف پرزوں میں آکر مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیر اور سوات میں ویلڈنگ کے ذریعے بنائی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پرزے پہلے باہر سے سمگل کرکے راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں سپلائی کیے جاتے ہیں اور بعد میں کنٹینر میں گاڑی کو انجن سمیت تین چار بڑے پرزوں کی شکل میں مالاکنڈ لایا جاتا ہے جہاں پر گاڑیوں کے ڈینٹر ان کو ویلڈ کر کے اس سے پوری گاڑی بناتے ہیں۔

تاہم سمیر کے مطابق ان گاڑیوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک جن کے پرزے تو لائے جاتے ہیں لیکن ان کا چیسس ٹھیک ہوتا ہے اور اس میں کوئی ٹیمپرنگ نہیں کی جاتی اور دوسری وہ جنہیں ’پیڈ وتے‘ (یعنی پیڈ نکلا ہوا) کہا جاتا ہے، جن کے چیسس جوڑتے وقت ٹیمپرنگ کی جاتی ہے۔  ان میں زیادہ تر گاڑیاں چوری شدہ ہوتی ہیں۔

سمیر کے مطابق: ’ان کے سب سے زیادہ ڈیلرز سوات اور چکدرہ میں ہیں جہاں پر کنٹینر خالی کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر اس میں چھوٹی گاڑیاں اور سوزوکی پک اپ گاڑیاں شامل ہیں۔‘

’کٹ گاڑیوں‘ کی قیمتوں کے بارے میں سمیر نے بتایا کہ 2001 اور 2002 کی ٹویوٹا وٹز ماڈل جو کسٹم پیڈ آج کل تقریباً 10 سے 12 لاکھ تک ملتی ہے وہی گاڑی یہاں تین سے چار لاکھ میں مل جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں جاپانی فیلڈر گاڑیاں بھی زیادہ تعداد میں بنائی جاتی ہیں جو تقریباً چھ لاکھ روپے تک مل جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس قسم کی گاڑیوں کے حوالے سے عدالت کے فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ ’ان گاڑیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مسائل درپیش ہیں کیوں کہ اس سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ پاکستان میں ٹرانسپورٹ قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے کہ اس قسم کی ویلڈ شدہ گاڑیاں روڈ پر چلیں۔‘

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’ایسی گاڑیاں جن کے پرزے ویلڈ کیے گئے ہوں اور چیسس میں ٹیمرپنگ کی گئی ہو، پولیس انہیں ضبط کرے اور سرکاری ویئر ہاؤس میں رکھے اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری فرد کو ان کو استعمال نہ کرنے دیا جائے۔‘

کسٹم حکام کا کیا موقف ہے؟

پاکستان کسٹمز کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ضبط کرنے سے متعلق حکومت کی جانب سے ایسا کوئی نوٹس یا ہدایات ہمیں نہیں ملی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ افواہیں ہم نے دیکھیں ہیں لیکن سرکاری طور پر ہمیں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ ’ان گاڑیوں کو ایک سال کا مزید وقت دیا گیا ہے‘ تو اس کے بعد حکومت کیا ارادہ رکھتی ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک کوئی فیصلہ تو نہیں کیا گیا ہے لیکن قوی امکان نہیں ہے کہ پولیس کے ساتھ 2018 میں رجسڑ کی گئی گاڑیوں کو پہلی فیز میں کسٹم کیا جائے گا۔‘

کسٹم اہلکار نے بتایا کہ ’پولیس نے تقریبا ایک لاکھ سے زیاد گاڑیاں رجسٹر کی ہیں تو پہلے مرحلے میں ہوسکتا ہے ان گاڑیوں کے مالکان کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کا کہا جائے اور ان گاڑیوں کو رجسٹر کیا جائے اور اس کے بعد دیگر گاڑیوں کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان