اسرائیلی فورسز کو انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوالات کا سامنا

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی حکومت کے سابق ڈپٹی نیشنل انٹیلی جنس افسر جوناتھن پینی کوف جو اب اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ہیں، نے کہا کہ ’یہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھی۔  یہ اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

آٹھ اکتوبر 2023 کو تباہ شدہ ایک اسرائیلی پولیس سٹیشن (رونالڈو شمٹ / اے ایف پی)

حماس کے عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی سربراہوں کو ان بڑھتے ہوئے سوالات کا سامنا ہے کہ یہ تباہی کیسے ہوئی؟

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس ان عسکریت پسندوں نے غزہ کے ارد گرد کھڑی کی گئی رکاوٹیں توڑ دیں اور مرضی سے علاقے میں گھومتے پھرتے رہے۔ حملہ آوروں کے ہاتھوں اسرائیلی قصبوں میں درجنوں شہری مارے گئے۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے 50 سال مکمل ہونے کے ایک دن بعد ہونے والے اچانک حملے پر اسرائیلی فوج ایک بار پھر حیران رہ گئی۔ عرب اسرائیل جنگ کے آغاز پر شامی اور مصری ٹینکوں کی قطاروں نے اسرائیل کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔

اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل جیورا ایلاند نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’یہ (حملہ) اس وقت کے واقعات سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل بہت منظم حملے پر مکمل طور پر حیران رہ گیا۔‘

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’اگے چل کر‘ خفیہ اداروں کی تیاری پر بات ہوگی لیکن فی الحال توجہ لڑائی پر مرکوز ہے۔ ’ہم اس کے بارے میں بات کریں گے جب ہمیں اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘

اسرائیل ہمیشہ حماس کو اپنا کھلا دشمن مانتا رہا ہے لیکن 2021 میں 10 روزہ جنگ میں غزہ کو بھاری نقصان پہنچانے کے بعد سے اسرائیل نے ناکہ بندی والے علاقے میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے سزا اور انعام کی حکمت عملی اپنائی۔

اسرائیل نے اقتصادی مراعات کی پیشکش کی جس میں ہزاروں ورک پرمٹ شامل ہیں جن میں غزہ کے مکینوں کو اسرائیل یا مقبوضہ مغربی کنارے میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ سخت ناکہ بندی اور فضائی حملوں کا مسلسل خطرہ برقرار رکھے گئے۔

گذشتہ 18 ماہ سے مغربی کنارے میں تشدد جاری ہے تاہم غزہ نسبتاً پرسکون رہا ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پار ہونے والی جھڑپوں میں بنیادی طور پر چھوٹی اسلامی جہاد تحریک شامل تھی اور حماس بڑی حد تک ایک طرف رہی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت نے ہمیشہ سلامتی پر بہت زور دیا ہے اور حماس سمیت فلسطینی عسکریت پسند دھڑوں کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔ 2007 سے غزہ کا انتظام حماس کے پاس ہے۔

اسرائیلی خفیہ اداروں کی ناکامی

تاہم جب وقت آیا تو اسرائیل کا سکیورٹی نظام ناکام ہوتا دکھائی دیا۔ حماس کے مسلح لوگوں پر مشتمل فورس جس کے بارے میں اسرائیلی فوج کا اندازہ ہے کہ اس میں سینکڑوں افراد شامل تھے، سکیورٹی رکاوٹیں توڑ کر قصبوں میں پھیل گئی۔

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی حکومت کے سابق ڈپٹی نیشنل انٹیلی جنس افسر جوناتھن پینی کوف جو اب اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ہیں، نے کہا کہ ’یہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھی۔  یہ اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینی کوف کے بقول: ’یہ سکیورٹی کی ناکامی تھی۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ اس کے پاس غزہ کے لیے مضبوط اور موثر سکیورٹی پلان موجود ہے۔ تاہم حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔‘

اسرائیلیوں کے لیے غزہ میں سڑکوں پر پڑی لاشیں یا شہریوں کے گروہوں کو دور بھگانے یا قیدی بنانے کی تصاویر شدید صدمہ تھیں۔

حماس کے حملے میں ڈھائی سو سے زیادہ اسرائیلی جان سے گئے اور 1500 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ ایک ہی دن میں اسرائیلی متاثرین کی غیر معمولی تعداد ہے۔ فوج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

مسلح افراد نے جنوبی قصبے سدروت میں ایک تھانے سمیت سکیورٹی چوکیوں پر بھی قبضہ کر لیا اور اسرائیل اور غزہ کے درمیان موجود ایریز کراسنگ پار کر لی۔ اس جگہ سکیورٹی بہت سخت ہے جہاں لوگوں کو بہت سخت جانچ پڑتال کے بعد آنے جانے دیا جاتا ہے۔

ہفتے کو حماس کے ذرائع ابلاغ نے فوٹیج چلائی جس میں جنگجوؤں کو خالی دفاتر سے گزرتے ہوئے اور کنکریٹ کی اونچی دیواریں پھلانگتے دکھایا گیا۔

اسرائیل کے قومی سلامتی کے سابق مشیر ایال حلاتا کا کہنا ہے کہ ’وہ (حماس والے) طویل عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت مربوط حملہ ہے اور بدقسمتی سے وہ ہمیں حکمت عملی کے لحاظ سے حیران کرنے اور تباہ کن نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا