’خواتین اور نوجوان لڑکیاں مہندی لگوانے آتی ہیں اور جاتے ہوئے بہت خوش ہوتی ہیں۔ ان کو کوئی مسئلہ نہیں کہ مہندی لڑکا لگا رہا ہے یا لڑکی، لیکن وہ کام سے خوش ہو کر جاتی ہیں۔‘
یہ کہنا تھا 16سالہ محمد حنان علی کا جو پشاور میں پہلے مرد مہندی آرٹسٹ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اپنے گھر کے تہہ خانے میں بنے سیلون میں مہندی لگانے والے حنان کے آس پاس مہندی کے کون پڑے ہوئے ہیں جبکہ پیچھے ایک بینر پر ان کی تصویر اور ’پشاور کا پہلا مرد مہندی آرٹسٹ‘ لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ان کے سیلون میں کچھ چھوٹی بچیاں اور ایک خاتون مہندی لگوانے کی منتظر نظر آئیں۔
حنان نے بتایا، ’پشاور کے مختلف علاقوں سے خواتین آ کر مہندی لگواتی ہیں اور عید سمیت شادی بیاہ کی تقاریب کے موسم میں بہت رش ہوتا ہے۔‘
حنان کے مطابق مہندی لگانے کا کام انہوں نے بچپن میں خود ہی سیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ والدین کی مدد سے وہ اس شعبے میں آگے آئے اور اب اسی کو روزگار بنایا ہے۔ ان کی والدہ سیلون چلانے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔
’میں مہندی لگانے کے کام کے علاوہ پشاور کے ایک کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں۔ شکر ہے کہ اپنے خرچے سمیت کالج کی فیس بھر لیتا ہوں۔‘
حنان ٹیٹو لگانے کے بھی ماہر ہیں۔ ’پشاور میں زیادہ رجحان مہندی کا ہے لیکن بعض اوقات کچھ کلائنٹ ٹیٹو بنوانے کے ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ میں ٹیٹو جلد کو کرید کر نہیں بناتا بلکہ رنگ والی مہندی سے مختلف ڈیزائن بناتا ہوں۔‘
حنان کے والد گاڑیوں کے ایک شو روم میں ملازم ہیں جبکہ ان کے ایک بھائی سافٹ ویئر انجینیئرنگ کر رہے ہیں۔
جب پوچھا گیا کہ کیا لوگ انہیں یہ نہیں کہتے کہ مہندی لگانا تو خواتین کا کام ہے آپ کیوں کر رہے ہیں؟ تو حنان نے کہا ابھی تک انہیں ایسا کچھ سننے کو نہیں ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ ان سے سوشل میڈیا کے ذریعے اپائنٹمنٹ لیتے ہیں۔ ’ابھی ہم نے عید کی بکنگ شروع کی ہے لیکن زیادہ تر چاند رات اور عید سے ایک دو دن پہلے رش ہوتا ہے۔‘
حنان کی فیس 500 روپے سے شروع ہوتی ہے اور پھر ڈیزائن، محنت اور وقت کے حساب سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
وہ دلہن کے ہاتھ اور پاؤں پر بھی مہندی لگاتے ہیں جس کی فیس آٹھ ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔
حنان کہتے ہیں کہ انہوں نے محض 16 سال کی عمر میں پڑھائی کے ساتھ کمانا شروع کر دیا لیکن بہت سے نوجوان گریجویشن کے بعد بھی گھر میں ہی بیٹھ جاتے ہیں۔
’یہ ایک ہنر ہے اور میں تمام نوجوانوں کو نصیحت کروں گا کہ جس شعبے میں شوق زیادہ ہے، پڑھائی بھی اسی شعبے میں کریں اور آگے آئیں۔‘