کراچی کی کچی بستی شیرپاؤ کالونی کی سات لڑکیوں پر مشتمل ایک ٹیم ’ٹائٹنز‘ نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ اینڈ میتھمیٹکس (STEM) پر مبنی ایک بین الاقوامی مقابلے کے مڈل لیول میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
امریکہ کے ایک بین الاقوامی ادارے ڈیسٹی نیشن امیجی نیشن کے پروگرام ’امیجن ایکسپیرینس‘ کے تحت فروری سے مئی کے درمیان ہونے والے اس پراجیکٹ بیسڈ لرننگ مقابلے کے نتائج کا اعلان 12 اگست کو کیا گیا۔
اس پروگرام میں پاکستان سے 15 ٹیموں نے شرکت کی، جن میں سے کراچی کے رہنما ٹرسٹ کے تحت چلنے والی رہنما اکیڈمی کی ٹیم مڈل لیول ایج گروپ کے مقابلوں میں اول آئی۔
اس مقابلے میں تین براعظموں کے 671 طلبہ شریک ہوئے جنہیں 111 ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس مقابلے کے لیے بچوں کی عمروں کے حساب سے انہیں تین لیولز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایلیمنٹری لیول میں امریکہ کی ٹیم کو جیت نصیب ہوئی۔ مڈل لیول میں پاکستان کی ٹیم ’ٹائٹنز‘ جبکہ سینئیر لیول میں افریقہ کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم ’ٹائٹنز‘ کی ایک رکن رابعہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں اور میری ٹیم اس وقت بہت خوش ہیں کیونکہ ہمیں سکول کی طرف سے اتنا اعتماد ملا کہ ہمیں یقین تھا کہ ہم یہ کر پائیں گے۔‘
آٹھویں جماعت کی طالبہ رابعہ سمیت وہ چھ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ رابعہ نے بتایا کہ ان کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ اپنے پراجیکٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کا پراجیکٹ مصنوعی ذہانت، ریسرچ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ایک کہانی تخلیق کرنے اور اس کی ویڈیو بنانے پر مشتمل تھا۔ ’ہمیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ڈیوائس بنانی تھی۔ ایک ایسی مشین جو چہرہ پہچان سکے یا خود چل پھر سکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہمیں دنیا بھر کے مشہور مجسموں کے ناموں کی لسٹ دی گئی تھی جن پر ہمیں تحقیق کرنے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے اپنی کہانی کے لیے مصر کا مجسمہ ’سفنکس‘ چنا۔ اس کہانی میں ہمارا انٹیلی جنٹ ایجنٹ جو کہ ایک روبوٹ تھا، وہ کسی بھی نئے کردار کی اس جگہ پر جانے اور اس جگہ کے بارے میں جاننے میں مدد کرتا ہے اور مجسمے کو یہ بھی بتاتا ہے کہ اب تک دنیا میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اگر کہانی کے کسی کردار کو کسی نئی جگہ کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو وہ اس مسئلے کا حل نکال کر دیتا ہے۔‘
رابعہ نے بتایا کہ اس کے لیے انہوں نے ری سائیکل شدہ مٹیریل سے ایک روبوٹ تخلیق کیا اور اسی مٹیریل سے مصر کا مجسمہ سفنکس بھی بنایا اور یہ سب کچھ انہیں پاکستان کی ایک کمپنی ای سروسز ٹیکنالوجی کی جانب سے مفت مہیا کیا گیا۔ ’جب ہمارا پراجیکٹ تیار ہوگیا تو ہم نے اسے ای سروسز اینڈ ٹیکنالوجی کو بھیجا۔ جنہوں نے یہ پراجیکٹ آگے امیجن ایکس کو آن لائن بھیجا اور پراجیکٹ نے دنیا بھر میں پہلا انعام حاصل کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس پراجیکٹ کا پہلا اصول یہ تھا کہ کوئی بڑا ہماری مدد نہیں کرے گا۔ اساتذہ صرف اس حد تک مدد کر سکتے تھے کہ وہ ہمیں ریسرچ کرنے کے لیے ویب سائٹس بتا دیں، باقی سارا کام ہم نے خود کرنا تھا جو ہم نے کیا۔‘
شیرپاؤ بستی کی رہنما اکیڈمی کے پرنسپل ناصر نے بتایا کہ پانچویں سے آٹھویں جماعت کی یہ تمام بچیاں انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اس پراجیکٹ کے لیے انہوں نے بہت محنت کی۔ ’کرونا کے باعث لگے لاک ڈاؤن کے باوجود وہ کبھی سکول اور کبھی ایک دوسرے کے گھر پر جا کر کام کرتی رہیں۔‘
پاکستان میں ڈیسٹی نیشن امیجی نیشن کے تحت ہونے والے مقابلوں میں گذشتہ چند برسوں سے کئی بچے ہر سال حصہ لیتے ہیں۔ اسی برس لاہور کی ایک ٹیم ’آل سٹار‘ نے کمیونٹی سروس کے مقابلے میں ٹارچ بئیرر کا ایوارڈ بھی جیتا ہے۔
ای سروسز اینڈ ٹیکنالوجی کیا ہے؟
کراچی کی رہائشی عروج سیمی ای سروسزاینڈ ٹیکنالوجی نامی یہ ادارہ چلاتی ہیں اور اپنی کمپنی کے ذریعے وہ پاکستان سے بچوں کو ان مقابلوں کے لیے بھیجتی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عروج نے بتایا: ’ہم نے 2017 کے وسط میں اس ادارے کا آغاز کیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بین الاقوامی دنیا میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ اور دیگرشعبوں میں ہونے والے جدید طریقہ تعلیم کو یہاں متعارف کروایا جائے۔ اس میں پراجیکٹ بیسڈ لرننگ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹکس پر مبنی بین الاقوامی پروگرامز شامل ہیں۔‘
بقول عروج: ’اس طرح کے تعلیم کے مواقع ان بچوں کو تو مل جاتے ہیں جن کے والدین مالی استطاعت رکھتے ہیں یا وہ جو ملک سے باہر ہیں، لیکن ہم ان پروگرامز میں ان بچوں یا سکولز کو بھی شامل کرتے ہیں جن کے پاس وسائل نہیں۔ ان کے لیے پھر ہم سپانسرز ڈھونڈتے ہیں جو ان بچوں کی فیس دے کر ان پروگرامز میں ان کی شمولیت کروا دیں اور اب رواں برس ڈیسٹی نیشن امیجی نیشن نے غیر مراعات یافتہ بچوں کے لیے امیجن ایکس کے نام سے پروگرام شروع کیا ہے۔ اس میں بچوں کو STEM یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ اور میتھمیٹکس کو مکس کرکے استعمال کرنا سکھایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس میں بچہ ایک مضمون الگ الگ نہیں پڑھتا بلکہ اسے مختلف مضامین کا استعمال ایک پراجیکٹ میں کرنا بتایا جاتا ہے۔ جیسے ٹیم ’ٹائٹنز‘ کے پراجیکٹ میں بچوں نے انگریزی بھی سیکھی، جغرافیہ بھی، تاریخ بھی، سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اور دیگر مضامین کا استعمال بھی کیا۔ ہمارے ہاں ایسا طرز تعلیم بہت کم ہے، اس لیے ہم نے اس پراجیکٹ کے لیے اپنا ہدف وہ بچے مقرر کیے جنہیں اپنے سکولوں میں کسی بھی صورت یہ سہولیات میسر ہی نہیں ہیں۔‘
عروج نے بتایا کہ اب تک وہ پاکستانی بچوں کو بین الاقوامی سطح پر ہونے والے پانچ سے چھ پروگراموں میں شرکت کروا چکی ہیں، جن میں ڈیسٹی نیشن امیجی نیشن، امیجن ایکس، ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کمپیٹیشن فار یوتھ شامل ہیں۔
بقول عروج: حال ہی میں کراچی کی آل گرلز ٹیم ’پنک فیریز‘ نے سٹیز ان سپیس انٹرنیشنل کمپی ٹیشن میں ’ینگ پائنیر ایوارڈ‘ جیتا ہے۔ اس میں دس سال سے کم عمر کی بچیوں نے شرکت کی۔ جبکہ پاکستان کی ہی آل بوائز ٹیم ’ننجا برادرز‘ نے انٹرنیشنل سٹیز ان سپیس ٹورنامنٹ کے مڈل لیول کے مقابلے میں پوری دنیا میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
2021 میں پاکستان اب تک ان مقابلوں میں چار مختلف ایوارڈز لا چکا ہے۔