دہلی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے معروف انڈین ناول نگار اور سابق کشمیری پروفیسر اروندھتی رائے کے خلاف 2010 میں کی گئی تقاریر پر قانونی کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ایسا اقدام ہے جسے ملک میں آزادی اظہار کے لیے تازہ ترین دھچکا قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
61 سالہ انعام یافتہ مصنفہ وزیراعظم نریندرمودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے انہیں انڈیا میں متنازع شخصیت بنا دیا ہے۔
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر(ایل جی) ونائی کمار سکسینہ نے رائے اور کشمیر سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف مبینہ طور پر ’عوامی مقامات پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں‘ استغاثہ پر دستخط کیے ہیں۔
2010 میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کمیٹی کے زیر اہتمام ’واحد راستہ آزادی‘ کے بینر تلے منعقدہ ایک کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی پاداش میں بغاوت کا الزام پر رائے اور دیگر کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی تھی۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن سشیل پنڈت نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ شرکا نے ’کشمیر کو انڈیا سے الگ کرنے‘ پر بات چیت کی اور اسے بڑھاوا دیا۔
کشمیر کا علاقہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دہائیوں پرانے تنازعہ کا محور ہے۔ دونوں ممالک اس خطے پر اپنا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کے صرف کچھ حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔
دہلی کے ایل جی آفس کے ایک عہدیدار نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور محترمہ رائے نے ’اس بات کا پرزور پروپیگنڈا کیا کہ کشمیر کبھی بھی انڈیا کا حصہ نہیں تھا اور انڈیا کی مسلح افواج نے اس پر زبردستی قبضہ کیا اور ریاست جموں و کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔‘ گیلانی اس میٹنگ میں موجود تھے۔
افسر نے کہا کہ رائے اور ڈاکٹر حسین کے خلاف بادی النظر میں انڈین قانون کی مختلف دفعات کے تحت ’مختلف گروہوں کے درمیان مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کے خلاف منفی کام کرنے‘ کا مقدمہ بنایا جاسکتا ہے۔
جب کیس درج ہوا تھا، 13 سال میں اس وقت سے ان کے دو شریک مدعا علیہان گیلانی اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سید عبدالرحمین گیلانی کی موت ہو چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قانونی چارہ جوئی کی اب منظوری دینے کے فیصلے کو سول سوسائٹی کے ارکان اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور مودی حکومت پر اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے کا الزام عائد کیا۔
سابق وفاقی وزیر اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر رکن پی چدمبرم نے کہا، ’میں 2010 میں اروندھتی رائے کی تقریر پر جو کچھ کہا تھا، اس پر قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘
انہوں نے غداری کے قانون کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ’اب ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
مصنف ہرش مندر نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ’جب تقاریر کی جاتی ہیں، چاہے دوسرے لوگ کتنے ہی اختلاف کیوں نہ کریں، ریاست کو رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں اظہار رائے کی آزادی اور بغاوت کے نوآبادیاتی قانون کے خلاف کھڑا ہوں۔
’اروندھتی رائے نے جمہوری انڈیا کے سفر کے ہر موڑ پر انصاف اور سچائی کے لیے طاقت، ہمت اور فصاحت کے ساتھ بات کی ہے۔‘
مصنفہ مینا کنڈاسامی نے کہا، ’آج ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے 2010 میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دینا حکومت کی مایوسی اور سچ بولنے کے خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن انہیں خاموش نہیں کیا جاسکے گا۔
’اگر مودی ایک دہائی قبل کی گئی تقریر کی وجہ سے انڈیا کے سب سے ذہین اور بہادر مصنف کے پیچھے پڑ رہے ہیں، تو اس سے حکومت کی مایوسی کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔‘
رائے آخری بار چار اکتوبر کو دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں صحافیوں کے ایک مظاہرے میں نظر آئی تھیں۔ انہوں نے ’نیوز کلک‘ نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر پربیر پورکیاستھا اور ان کے ایک منتظم کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی تھی۔
نیوز کلک کو انڈیا کے ان چند باقی میڈیا اداروں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مودی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ویب سائٹ کو چین سے غیر قانونی فنڈنگ ملی ہے یا نہیں، نیوز کلک نے مالی بدانتظامی کی تردید کی اور کہا کہ اس کی ویب سائٹ ’چینی پروپیگنڈے کی تشہیر نہیں کرتی۔‘
انڈیا کی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے بدھ کو دہلی میں پرکیاستھا کے گھر کی تلاشی لی اور کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی خلاف ورزی پر درخواست درج کی ہے۔
© The Independent