اقوامِ متحدہ ہر سال 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کا عالمی دن مناتی ہے۔ ہر سال اس دن کا ایک تھیم ہوتا ہے۔ اس سال کا تھیم ’مہذب کام اور سماجی تحفظ‘ ہے، جو ایک کافی اہم موضوع ہے۔
انتہائی غربت میں پھنسے ہوئے افراد ذرا سی رقم کے لیے اکثر خطرناک ترین کام کرنے پر بھی راضی ہو جاتے ہیں، جیسے ہمارے ملک پاکستان میں گٹر کھولنے کے لیے کوئی غریب آدمی بغیر کسی حفاظت کے اس میں اتر جاتا ہے۔ اگلے دن اخبار میں خبر آتی ہے کہ گٹر میں موجود زہریلی گیسوں کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
دو چار دن سوشل میڈیا پر اس بارے میں ہیش ٹیگ چلتے ہیں، تاہم وہی ہیش ٹیگ چلانے والے ذرا سی بارش ہونے پر گھر میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ باہر کیچڑ ہے۔ کپڑے گندے ہو جائیں گے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
جون 2017 میں ہونے والی عرفان مسیح کی موت کون بھول سکتا ہے۔ انہیں ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ عمر کوٹ میں چار ماہ سے بند ایک گٹر کی صفائی کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ عرفان کے ساتھ دو اور لوگ بھی گٹر میں اترے تھے۔ عرفان ان سب سے نیچے تھے۔ ان میں سے ایک کو باہر نکالا جا چکا تھا۔ وہ بے ہوش تھا۔ عرفان اور ان کے ساتھی کو بھی باہر نکالا گیا۔ عرفان کی سانسیں چل رہی تھیں۔
انہیں عمر کوٹ کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا۔ جب ڈیوٹی ڈاکٹر نے ان کی حالت دیکھی تو ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ روزے سے ہیں اور عرفان غلاظت میں لپٹے ہوئے ہیں۔ ان کی بہت منتیں کی گئیں کہ وہ بندہ مر سکتا ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں، لیکن ڈاکٹر کے لیے اس کا روزہ اہم تھا۔
اب یہ تو روزِ قیامت ہی پتہ لگے گا کہ ان کا روزہ قبول بھی ہوا کہ نہیں۔
عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں سنہ 2023 تک غربت کی شرح 2.37 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 2018 کے مقابلے میں اس سال پاکستان میں غریب افراد کی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
پاکستان کے مشکل معاشی ماحول، بگڑتی ہوئی لیبر مارکیٹ، کم ترسیلات، تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حال ہی میں قدرتی آفات کے اثرات کی وجہ سے گھریلو آمدنی میں کمی اور غربت میں مزید کمی آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کے اپنے مسائل ہیں۔ اسے ان سے فرصت ملے تو وہ عوام کی طرف توجہ دے، جن میں سے کچھ ایک لان کے سوٹ کے لیے گھنٹوں کسی سٹور کے باہر لائن میں لگے رہتے ہیں تو کچھ ایک روٹی کی خاطر کسی کے گھر پورا دن سخت کام کرتے ہیں۔
مزدوروں کے لیے تو پھر بھی کوئی نہ کوئی آواز اٹھا لیتا ہے۔ رات کے کھانے پر 15 ہزار روپے خرچ کرنے والے اپنے گھر میں کام کے لیے آنے والے مزدور کو یہی رقم دینے سے گھبراتے ہیں۔ اس سے 10 بار ریٹ کم کرواتے ہیں۔ خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے گھر میں پکی دال کے ساتھ روٹی اور کام کے دوران دو بار چائے دے دیتے ہیں۔
تاہم، گھروں میں جو خواتین صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں، ان کے بارے میں تبھی آواز اٹھتی ہے جب سوشل میڈیا پر کسی امیر کے گھر کام کرنے والی کسی کم سن بچی کی تشدد زدہ لاش کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں۔
ہم اپنے بچپن میں دیکھا کرتے تھے کہ کسی کے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو وہ کسی سے کہہ کر اس بچے کو سنبھالنے کے لیے کسی گاؤں سے ایک کمسن بچی بلوا لیتا تھا۔ شادی کی تقریبات ہوں یا گھروں میں دعوتیں ہوں یا ایسے ہی کہیں آنا جانا ہو، سجی سنوری ہوئی خاتون اپنا پرس سنبھالے آگے چلتی ہوئی آ رہی ہوتی تھیں اور ان کے پیچھے ان کے بچوں کی آیا، ان کے بچے کی پرام پکڑے آ رہی ہوتی تھی۔
ہم ایسی خواتین کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ دیکھو شوہر نے کتنا اچھا رکھا ہوا ہے۔ پھر ہم دیکھتے تھے کہ کھانے کے وقت وہ خود ایک پلیٹ میں اس آیا کو تھوڑا سا کھانا ڈال کر دیتی تھیں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ پلیٹ میں بوٹی نہ جانے پائے یا اگر چلی بھی جائے تو بس مریل سی۔ پھر سب کو کہہ دیا کہ دیکھیں جی ہم تو انہیں وہی کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں۔
جانے پاکستان میں یہ دن کیسے منایا گیا یا اس دن کے بارے میں کسی کو پتہ بھی تھا کہ نہیں۔ دنوں کا کام تو آنا اور جانا ہے۔ غریب تو ہمیشہ سے اس ملک میں رہے ہیں۔ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ان کے وجود کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
پہلے اچھے حالات والے لوگ ان کی مدد کر دیتے تھے۔ اب انہیں بھی مدد کی ضرورت ہے۔
جسے مدد کرنی چاہیے وہ اپنے خود ساختہ مسائل میں گھری ہوئے ہیں۔ عوام کا کوئی معاملہ سامنے آ جائے تو بس ایک مذمتی بیان جاری کر دیا جاتا ہے، پھر شاید نئے مذمتی بیان کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان مذمتی بیانات سے باہر نکلیں اور اصل کام کریں۔ عوام کو باعزت کام کرنے کا حق دیں۔ اس کام پر ان کے حقوق کو یقینی بنائیں تاکہ کسی کو بھی چند روپوں کے لیے نہ اپنی زندگی خطرے میں ڈالنی پڑے اور نہ کسی کے آگے ذلیل ہونا پڑے۔