اہم سیاسی جلسوں کے لیے مینار پاکستان کا انتخاب ہی کیوں؟

مسلم لیگ ن نے اپنے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کے استقبال کے لیے 21 اکتوبر کو جلسے کے لیے مینار پاکستان کا انتخاب کر رکھا ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اپنی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لے یا پھر بڑا سیاسی اجتماع یعنی جلسہ کرے۔

انتخابات تو اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوتے ہیں لیکن جلسہ تو سیاسی جماعت کسی بھی وقت کرسکتی ہے اور سیاسی اجتماع کے لیے جلسہ گاہ کا انتخاب بھی اس کی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔

ویسے تو لاہور جیسے شہر میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات کی ایک تاریخ ہے اور مینار پاکستان، موچی دروازے اور ناصر باغ میں مختلف ادوار میں مختلف طرح کے جلسے ہوتے رہے ہیں لیکن ان سب میں مینار پاکستان کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ اسی وجہ سے یہاں ہونے والے جلسوں نے سیاسی جماعتوں کی سیاست کے رخ ہی تبدیل کر دیے۔

اس مقام کی بنیادی وجہ شہرت 23 مارچ 1940 کو یہاں ہونے والا آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اجتماع ہے، جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے شرکت کی تھی۔ دو دن تک جاری رہنے والے اسی اجتماع میں پاکستان کے قیام کے لیے ایک قرار داد پیش کی گئی۔

اسی وجہ سے اس مقام کی ایک خاص اہمیت ہے۔ 1940 میں اسے منٹو پارک کے نام سے جانا جاتا تھا اور پاکستان بننے کے بعد 23 مارچ 1940 کی نسبت سے یہاں ایک یادگار بنائی گئی، جسے مینار پاکستان کا نام دیا گیا۔

جنرل ایوب خان کے دور میں عین اُسی مقام پر مینار پاکستان کی تعمیر کا کام شروع ہوا، جہاں 23 مارچ 1940 کا اجتماع ہوا تھا۔ 23 مارچ 1960 کو شروع ہونے والی اس کی تعمیر 21 اکتوبر 1968 کو مکمل ہو گئی۔

اب مسلم لیگ ن نے اپنے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کے استقبال کے لیے 21 اکتوبر کو جلسے کے لیے مینار پاکستان کا انتخاب کیا ہے۔ اس جماعت کا ڈھائی برس میں مینار پاکستان پر یہ دوسرا جلسہ ہے۔

اس سے پہلے مسلم لیگ ن نے سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر دسمبر 2020 میں یہاں جلسہ کیا تھا۔

یہ دوسرا موقع ہے جب مینار پاکستان پر کسی سیاسی جماعت کے مرکزی لیڈر کی وطن واپسی پر استقبال کے لیے ایک جلسہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے 1986 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر مینار پاکستان پر جلسہ ہوا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنی وطن واپسی کے لیے لاہور کا انتخاب کیا اور 10 اپریل 1986 کو لاہور کے ایئرپورٹ سے ایک بہت بڑی ریلی کی شکل میں وہ مینار پاکستان پہنچیں۔ یہ جلسہ لاہور کی تاریخ میں ایک بڑا جلسہ تصور کیا جاتا ہے، جس نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

مینار پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی جلسے کرنے کا ریکارڈ پاکستان تحریک انصاف نے قائم کیا جبکہ پہلے سیاسی اجتماع کا اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہے، جس کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات کے بعد مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کیا تھا۔

اس جلسے میں شرکت کرنے والے سینیئر قانون دان اور وکیل رہنما شاہد محمود بھٹی کہتے ہیں کہ یہ وہی جلسہ تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر پر اردو روزنامہ ’آزاد‘ نے ’اِدھر ہم، اُدھر تم‘ کی سرخی جمائی تھی، تاہم شاہد محمود بھٹی کے بقول ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کی تھی۔

مینار پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کا جلسہ کسی کو یاد ہو یا نہ ہو لیکن اس اخبار کی سرخی ضرور تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اسی مینار پاکستان پر ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے جلسہ کیا۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے بعد  1989 میں دوبارہ مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا۔ شاہد محمود بھٹی نے اس جلسے میں شرکت کی اور وہ بے نظیر بھٹو کی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں تقریر کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔

نواز شریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پلیٹ فارم سے مینار پاکستان پر جلسہ کیا، جو تعداد کے لحاظ سے ایک اچھا جلسہ تھا لیکن پیپلز پارٹی کے اس سے پہلے ہونے جلسوں کی نسبت چھوٹا تھا۔

اس کے بعد طویل عرصے تک مینار پاکستان پر جلسے نہیں ہوئے اور تقریباً 10 سال کے وقفے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد اے آر ڈی نے یہاں ایک جلسہ کیا۔

سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدر بننے کے لیے 30 اپریل 2002 کو ریفرنڈم سے پہلے مینار پاکستان پر ایک جلسہ کیا تھا۔ یہ سیاسی یا عوامی اجتماع کم بلکہ سیاسی ملازمین کا اکھٹ زیادہ تھا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں حکمران جماعت مسلم لیگ ق کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا۔ یہ جلسہ 13 اگست 2006 کو ہوا۔ اس جلسے کے بعد ایم کیو ایم نے اپریل 2011 میں مینار پاکستان پر دوبارہ جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مرتبہ ایم کیو ایم وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل تھی لیکن مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے ایم کیو ایم کو جلسے کی اجازت نہیں دی اور یہ جواز پیش کیا کہ مینار کی جگہ کسی متبادل جگہ پر جلسہ کیا جائے کیونکہ مینار پاکستان پر جلسے کے لیے سکیورٹی دینا مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کے مذہبی اجتماعات تو مینار پاکستان پر ہوتے رہے لیکن ان کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے 26 دسمبر 2012 کو  لاہور میں اس مقام پر ایک جلسہ کیا۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کا جلسہ بھی مینار پاکستان پر ہو چکا ہے۔

مینار پاکستان پر اب تک سب سے زیادہ جلسے پاکستان تحریک انصاف نے کیے ہیں۔ اس جماعت کا پہلا جلسہ 30 اکتوبر 2011 کو ہوا۔  یہ وہ دور تھا جب وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ اس جلسے کے بارے میں اس وقت کی صوبائی حکومت کے رہنما پرویز رشید نے دعویٰ کیا کہ جلسے میں تحریک انصاف نے جتنی کرسیاں لگائی ہیں، وہ ہی بھر جائیں تو بڑی بات ہوگی لیکن جلسے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف سب کو حیران کر دیا بلکہ تحریک انصاف کو سیاسی جماعت کی حیثیت سے مقبولیت دی۔ یہیں سے تحریک انصاف نے ملک کی سیاست میں ایک نیا موڑ لیا اور اس جماعت میں سیاسی رہنماؤں نے شمولیت شروع کی۔

اس جلسے کے بعد عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف نے 23 مارچ 2013 کو دوبارہ مینار پاکستان پر کامیاب جلسہ کیا۔ ایک برس کے بعد تیسری مرتبہ 28 ستمبر کو 2014 کو تحریک انصاف نے عام انتخابات کے بعد اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جلسہ کیا۔ تحریک انصاف نے چار برس کے وقفے کے بعد چوتھی بار عام انتخابات سے پہلے 28 اپریل 2018 کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ مینار پاکستان پر کیا۔

جولائی 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی، لیکن اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ 10 اپریل 2022 کو حکومت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر سے مینار پاکستان کا رخ کیا اور 21 اپریل 2022 کو یہاں جلسہ کیا۔

اور اب 21 اکتوبر کو مسلم لیگ ن اپنے قائد کی واپسی پر ایک بار پھر مینار پاکستان پر سیاسی پاور شو کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان