کہیں کم کہیں زیادہ، مگر ہر اسلامی ملک میں ایک گروہ ایسا موجود ہوتا ہے جس نے اسلام کے کسی عالمگیر سیاسی خاکے کو پلکوں پہ سجایا ہوتا ہے۔
عالمِ عرب میں اس خاکے میں رنگ بھرنے کا اعزاز اخوان المسلمون کو حاصل ہے اور عالمِ عجم میں جماعت اسلامی کو۔ دونوں کے ہی تانے بانے پیچھے جمال الدین افغانی کے ساتھ جا کر کہیں جا مل جاتے ہیں۔
جمال الدین افغانی والا تصور مذہبی لٹریچر میں پان اسلام ازم کے نام سے موجود ہے اور سید قطب و سید مودودی کے تصور کو پیار سے پولیٹیکل اسلام کہا اور لکھا جاتا ہے۔
یوں کہہ لیجیے کہ پان اسلام ازم کو آسان بھاشا میں پولیٹیکل اسلام ہی کہتے ہیں۔ اسی خواب وخیال کو اگر ایک لفظ میں جاننا اور سمجھنا ہو تو ’امہ‘ سے بہتر کوئی لفظ نہیں۔
امہ یا امت ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جو اپنے ماضی کے حوالے سے غلط فہمی، حال کے حوالے سے کوتاہ فہمی اور مستقبل کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے۔
امہ کا خیال ہے ہمارا کوئی شاندار ماضی تھا جس کو لوٹانا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ اس تابناک ماضی میں ان کے ہیرو کون ہیں تو آپ کو فہرست میں سب سے نمایاں ایوبی، غزنوی، خلجی، عثمانی عباسی اور مغل ملیں گے۔
مگر جب آپ ان کے کارنامے دیکھیں گے تو آپ کو ان کے ہاتھوں جلتے ہوئے شہر، قتل ہوتے بھائی، قبضہ ہوتے ہوئے تخت، جلاوطن ہوتے ہوئے اہل علم، پھانسی چڑھتے امام، لٹتے ہوئے مندر، پھیلتے ہوئے حرم، رسوا ہوتا علم، حرام قرار پاتی ہوئی ایجادات کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
یہ سوچنے کا حوصلہ بھی امہ ہی کا ہے کہ پاکستان پانی پت جیسے کسی معرکے میں بم بارود کی جنگ لڑ کر حاصل کیا گیا تھا۔
یہ سوچنے کی توفیق بھی صرف امہ کو ہوئی کہ 1965 کی جنگ میں کچھ سبز پوش بابے راوی کے پل پر دشمن کے بم کیچ کرکے انہیں سٹمپ آؤٹ کرتے تھے۔ افغانستان کے اندر لڑی جانے والی جنگ میں شکست ماسکو کو ہوئی اور جیت واشنگٹن کی ہوئی، ہتھیار امریکہ سے آئے اور پیسہ عربوں نے دیا۔
مگر امت سمجھتی ہے سوویت یونین کی افواج کو دریائے آمو کے اُس پار ہم نے یا پھر آسمان سے اترنے والے قدسیوں نے دھکیلا تھا۔ امریکہ افغانستان میں اپنے مفادات کو محفوظ کرکے افواج نکالنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔
اپنی موجودگی کے جواز کے لیے طالبان کو ہوا بھر کے جس نے کھڑا کیا تھا، اب وہی اس ہوا کو نکال کے اسے لپیٹ سمیٹ کے چھاؤں میں رکھنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امہ کا احساس یہ ہے کہ امریکہ کو اس نے شکست دے دی ہے۔
امہ سامنے کی دیوار پر جلی حروف میں لکھے کچھ ضروری سوالوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی۔ مثلا، دشمنی اور دوستی کی بنیاد اگر مذہب ہوتی ہے تو افغانستان ہم سے بدل دل اور چین خوش دل کیوں ہے؟
سعودیہ نے شام میں مرنے والے مسلمانوں کو اگر خانہ کعبہ میں ہونے والی دعاؤں میں یاد رکھا تو مصر کے رابعہ العدویہ میں سات ہزار مذہبی سنی سیاسی کارکنوں کو قتل کرنے والوں کو ڈیڑھ ارب ریال کا عطیہ کیوں دیا؟
القاعدہ کی بنیاد سعودیہ کی سرپرستی میں پڑی مگر القاعدہ نے سعودیوں کو ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں سب سے اوپر کیوں رکھا؟ ایران کے لیے القاعدہ ایک آنکھ بھی قابل برداشت نہیں تھی مگر زائدان اسی القاعدہ کے لیے دارلامان کیسے بن گیا؟
طالبان ہمیشہ سے ہمارے ہوتے سوتے تھے مگر ان کے جرمِ خانہ خراب کو دلی اور ممبئی میں پناہ کیسے ملی؟ القاعدہ بھی سنی وہابی تنظیم ہے اور شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والی جبہۃ النصرہ بھی سنی جہادی تنظیم تھی، مگر جب جبہۃ النصرہ نے حلب کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا تو القاعدہ نے جا کر وہ قبضہ کیوں چھڑایا؟
جبہۃ النصرہ کے سربراہ کو ذبح کرکے سڑک پر کیوں پھینکا؟ حزب اللہ شیعہ تنظیم ہے اور حماس سنی جہادی تنظیم ہے۔ دونوں ایک عظیم مقصد کے لیے فلسطین میں ایک پیج پر ہیں مگر اسی حماس کی ہم خیال تنظیموں کے خلاف حزب اللہ شام میں برسرپیکار کیوں ہے؟
حماس کا دوسرا بڑا دفتر کسی بھی ہم عقیدہ اسلامی ملک میں ہونے کی بجائے تہران میں کیوں ہے؟ تہران کو مصر میں ڈکٹیٹر منظور نہیں مگر شام میں وہ ڈکٹیٹر کے ساتھ کیوں ہے؟
کشمیری مجاہدین کبھی فلسطین کیوں نہیں گئے؟ فلسطینی مجاہد کبھی کشمیر کیوں نہیں آئے؟ چلیے یہ دونوں مجاہدین اپنے اپنے خطوں میں مصروف ہوں گے، مگر حزب اللہ، القاعدہ اور داعش کے فلائنگ مجاہدین نے کبھی فلسطین کا کیوں نہیں سوچا؟
سب نے مل کر کشمیر کی فکر کیوں نہیں کی؟ اب تک پاکستانی امہ کشمیر کیسے جارہی تھی؟ اور اب پاکستانی امہ کو کشمیر جانے سے کس نے روکا ہوا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امہ کی ایک شاخ وہ ہے جو غیر شعوری اور غیر ارادی امہ ہے۔ امہ کے اس والے شجر سے پیوستہ لوگ بہت کیوٹو میوٹو سے ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے ویلینٹائنز ڈے کے موقع پر اگر احتیاطی تدابیر کی خریداری میں اضافہ ہوجائے تو یہ بہت بری بات ہوتی ہے۔
یہی اضافہ اگر ربیع الاول اور عاشورہ کی چھٹیوں کے موقع پر ہو تو اس میں پریشانی کی ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔یہ سڑک پر نکلتے ہیں تو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ پولیس مار کیوں رہی ہے۔
پولیس اگر مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا۔ یہ سوشل ازم کو نسلِ انسانی کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں مگر ٹی شرٹ چی گویرا کی تصویر والی پہنتے ہیں۔
یہ اپنے رویے میں غیر جمہوری ہوتے ہیں مگر پسندیدہ مصنفین میں ژاں پال سارتر کو سرفہرست رکھتے ہیں۔ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگ ایک قوم کہلائیں، مگر ان کا اصرار یہ ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ قیامت کی دوپہر تک زندہ رہے گا۔
یہ قائد اعظم کی سگار ، سنوکر اور کتے والی تصویروں کی ڈی پیاں لگاتے ہیں مگر قائد اعظم کا تعارف کسی فرقہ پرور مولوی جیسا کرواتے ہیں۔یہ سیاسی مہم کے لیے کسی بھی ادارے سے پیسے لینے والی سیاسی جماعت کو مجرم سمجھتے ہیں، مگر پیسے دینے والوں سے پیسے لینے والوں کا احتساب کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری بھٹو پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ وزیر اعظم تھے، مگر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کا سہرا ان کے سر نہیں باندھتے، کیونکہ ایک وزیر اعظم کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ اتنی بھاری ذمہ داری ادا کرے۔
ان کو لگتا ہے کارگل پہ چڑھ دوڑنے جیسا بڑا اور مشکل فیصلہ میاں نواز شریف نے کیا تھا، مگر ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ انہوں نے نہیں کیا کیونکہ یہ ایک بڑا اور بہت مشکل فیصلہ تھا۔
معلوم انسانی تاریخ میں امہ کا کردار کرائے کے ایسے مجاہدین کے طور پر نمایاں رہا ہے جو بہت خلوص کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ عمر بھر اپنے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں مگر انہیں لگتا ہے کہ دشمن پسپا ہو رہا ہے۔
پاکستان کی مقتدرہ کو امہ اسلام کا دشمن سمجھے گی مگر کشمیر میں اسی مقتدرہ کے لیے جان لڑا دے گی۔ آل سعود کو یہ یہود و ہنود کا ایجنٹ کہے گی مگر یمن میں اسی آل سعود کی دہکائی ہوئی جنگ میں بے خطر کود جائے گی۔
اثنا عشری شیعہ کو یہ کافر کہے گی مگر شام میں اسی کے حصے کی ساری جنگیں اپنے سر لے لے گی۔ امریکہ پر ہر نماز کے بعد لعنت کرے گی مگر روس کے خلاف اسی امریکہ کی جنگ بنامِ خدا لڑے گی۔
کمیونزم کو کفر والحاد کا پلندہ قرار دے گی مگر امریکہ کے خلاف اسی کمیونزم کے مورچے میں بیٹھ کر جنگ لڑ لے گی۔
اس امہ کی لڑی ہوئی کسی ایک بھی جنگ کا خود اسےکبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ فائدہ اگر ہوا تو بجا طور پر ہمیشہ ان کا ہوا جنہوں نے میدان سجائے اور میدان وہی سجاتے آئے ہیں جنہیں یہ امہ ازل سے اپنا حریف سمجھتی آئی ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ امہ نے آج تک کرائے کی جنگیں لڑیں اور اپنا ہی نقصان کیا۔ المیہ یہ ہے کہ آئندہ بھی یہ کرائے کی بجلی بن کر اپنے ہی نشیمن پر گر جائے گی۔
یہ امہ نصف صدی سے کشمیر کی بھٹیوں میں مسلم نوجوانوں کو جھونکتی رہی۔ کاغذ قلم، الفاظ حروف، روپیہ پیسہ سب اٹھاکر اس عظیم مقصد پر وار دیا۔ انجامِ کار ان کے ہاتھ کیا آیا؟
12 سے ساڑھے 12 بجے تک کا ایک احتجاج! مگر آپ اطمینان رکھیے امہ کے پاس جب کچھ بھی نہیں رہے گا تو ایک امید پھر بھی رہے گی۔ ایک دن حضرتِ امام مہدی آئیں گے اور ہم دنیا کے سینے پر جھنڈا گاڑ کے اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیں گے۔ علامہ اقبال کی پیروی کرنے کو امہ اپنا اعزاز سمجھتی ہے مگر اقبال کی سنیے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں:
مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
اب انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
نوٹ: یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اِن سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔