جب ڈاکٹر حسن زین الدین اپنی سائیکل پر زخمیوں اور بیماروں کے علاج کے لیے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے تو اس وقت غزہ کے آسمان پر اسرائیل کے فضائی حملوں کے نتیجے میں تباہ حال عمارتوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل دکھائی دے رہے تھے۔
لیکن انہوں نے اس کی زیادہ پروا نہیں کی کیونکہ جو فریضہ وہ ادا کر رہے تھے، ان کا جذبہ اور کارکردگی یکے بعد دیگرے ہونے والے ان دھماکوں سے کہیں زیادہ مضبوط تھا۔
ڈاکٹر حسن نے اپنے پانچ بچوں کو الوداع کہا، ان کی پیشانی پر بوسہ لیا اور کام کے لیے نکل کھڑے ہوئے لیکن پیچھے سے ان کی اہلیہ کی آواز نے ان کے قدم روک لیے۔ دراصل وہ انہیں میڈیکل یونیفارم دینے آئی تھیں اس امید کے ساتھ کہ اسرائیلی طیارے طبی عملے کے یونیفارم میں ان پر حملہ نہیں کریں گے۔
اپنی اہلیہ کی باتیں سن کر ڈاکٹر حسن کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن انہوں نے انہیں چھپا لیا اور انہیں اپنا خیال رکھنے اور دعا کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ گذشتہ کئی دن سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران کسی طبی کارکن یا جنگجو میں کوئی تمیز نہیں رکھ رکھی گئی تھی۔
ڈاکٹر حسن اپنی سائیکل پر سوار ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ پیڈل پر پاؤں رکھتے، انہوں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی جس نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔
دھماکے سے ہر سُو ملبے کے ٹکڑے اور پتھر اڑ رہے تھے اور انہیں فوراً معلوم ہو گیا کہ اب انہیں پناہ گزین کیمپ میں قائم میڈیکل ریلیف سینٹر کی بجائے دھماکے کے مقام پر پہنچ کر زخمیوں کی مدد کرنی ہے۔
ڈاکٹر حسن میڈیکل ریلیف سینٹر میں دائمی بیماریوں کے مرکز کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، جو غزہ کی پٹی میں ان بین الاقوامی اداروں میں سے ایک ہے جو زخمیوں اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال اور علاج کے علاوہ ایمبولینس اور ہنگامی خدمات فراہم کرتا ہے۔
لیکن جنگ کے دوران انہوں نے اپنے کام کو دو سمتوں میں وقف کر دیا۔ پہلے زخمیوں کو علاج اور بنیادی دیکھ بھال فراہم کرنا اور پناہ گزین کیمپوں اور سکولوں میں بے گھر ہونے والے بیمار لوگوں کے لیے فیلڈ وزٹ اور انہیں وہ طبی خدمات فراہم کرنا جن کی انہیں ضرورت تھی۔
ڈاکٹر حسن زین الدین نے فوری طور پر اپنی سائیکل کا رخ موڑا اور دھماکے کے مقام کی طرف بڑھے۔ سڑک انتہائی ناہموار تھی کیوں کہ تمام مرکزی اور اطراف کی سڑکیں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکی تھیں۔ دھماکے والے مقام پر ہر جانب زخمیوں کی چیخیں اور فریادیں سنائی دے رہی تھیں۔
بمباری کے مقام پر انہوں نے زخمیوں کو ملبے سے نکالنے اور اپنی سائیکل کا استعمال کرتے ہوئے انہیں متاثرہ علاقے سے منتقل کرنا شروع کیا۔ وہ زخمیوں کو اس وقت تک ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے رہے جب تک کہ ان کے ساتھی ایمبولینس میں وہاں نہیں پہنچ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر حسن نے کہا: ’یہ ایک انسانی فریضہ ہے۔ ہم زخمیوں کو اس حالت میں نہیں چھوڑ سکتے جب کہ ان کا خون بہہ رہا ہو کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔ یہ عام شہری ہیں اور تشدد کی بجائے تحفظ کے مستحق ہیں۔‘
ڈاکٹر حسن نے اپنا کام جاری رکھا اور پھر اسرائیلی ٹینکوں اور توپ خانے کے گولوں اور جنگی طیاروں کے سائے میں اپنا خطرناک سفر دوبارہ شروع کر دیا۔ اس بار ان کی منزل غزہ کا وہ حصہ تھا جس کے مکینوں کو اسرائیلی فوج نے وہاں سے نکلنے اور جنوب کی طرف جانے کا حکم دے رکھا ہے۔
ڈاکٹر حسن زین الدین غزہ کے رہائشی ہیں لیکن تباہ کن اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں وہ وہاں سے بے گھر ہو کر غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع کیمپ میں مقیم ہیں کیوں کہ اپنے خاندان کے لیے یہاں رہائش کے علاوہ انہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ملی۔ تمام مشکلات اور جنگ کے دوران بھی انہوں نے اپنا کام نہیں چھوڑا۔
انہوں نے کہا: ’میرے پاس ایک کار ہے لیکن میں اسے چلانے سے قاصر ہوں کیوں کہ غزہ میں ایندھن نہیں ہے، اس لیے میں نے اپنی سائیکل کا استعمال شروع کر دیا تاکہ میرے کام میں رکاوٹ نہ آئے۔ میں جس پناہ گاہ میں رہتا ہوں وہ میرے کام کی جگہ سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ہے اور میں یہ فاصلہ ہر روز سائیکل پر طے کرتا ہوں جہاں ہر وقت آسمان سے اسرائیلی بمباری کا خطرہ رہتا ہے۔‘
سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کی سخت ناکہ بندی کر کے ایندھن کی فراہمی روک دی ہے۔ مصر اور امریکہ سمیت بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی پابندیوں میں نرمی کی اور فوری انسانی اور طبی امداد کے داخلے کی اجازت دی ہے لیکن وہاں اب بھی ایندھن کے داخلے پر پابندی ہے جو کہ ہسپتالوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر حسن ہر روز غزہ سٹی میں میڈیکل ریلیف ہیڈ کوارٹر میں اپنے کام کی جگہ پر جاتے ہیں، جہاں شدید بیماریوں میں مبتلا درجنوں افراد ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے کچھ ساتھی ڈاکٹرز کام کی جگہ تک نہیں پہنچ سکتے جبکہ مریضوں کو طبی خدمات کی ضرورت ہے اور اگر وہ بھی کام پر نہ پہنچ پائیں تو ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔
ڈاکٹر حسن زین الدین کے مطابق: ’غزہ ایک آفت زدہ علاقہ ہے اور بیماروں اور زخمیوں کی خاطر قربانی دینے کے لیے یہاں کسی کی ضرورت ہے۔‘
زخمیوں اور مریضوں کے علاج کے لیے اپنی طبی ذمہ داری نبھانے کے بعد وہ واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں اور جنوبی غزہ میں واقع کیمپ کی طرف چلے جاتے ہیں جہاں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد بے تابی سے ان کی آمد کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔