معروف تاریخ دان پروفیسر رومیلا تھاپڑ کو دہلی کی جے این یو کی جانب سے جولائی میں بھیجا جانے والا ایک خط ملا جس کے مطابق انہیں سی وی بھیجنے کا کہا گیا تاکہ یونیورسٹی ان کی تعلیمی قابلیت کی چانچ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کر سکے کہ وہ جے این یو میں بطور پروفیسر امریطس (تاحیات پروفیسر) مزید کام کر سکتی ہیں یا نہیں۔
87 سالہ رومیلا تھاپڑ 1991 میں ریٹائر ہو چکی ہیں جس کے بعد انہیں تاحیات پروفیسر بنا دیا گیا تھا۔ وہ بھارت کے دانشور حلقوں میں مودی حکومت کی سخت ناقد کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔
موجودہ صورت حال میں گمان کیا جا سکتا ہے کہ جے این یو کی موجود ایگزیکٹوکونسل شاید اس پروفیسرشپ کے مطلب سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ کوئی ایسی پوزیشن ہے جس پر تعیناتی کے لیے کئی لوگوں کی درخواستیں موجود ہیں۔
پروفیسر امریطس کیا ہوتا ہے؟
ایک امریطس کی پوزیشن عام یونیورسٹی پروفیسر سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس پوزیشن کے لیے کوئی کسی کو درخواست نہیں دیتا۔ یہ ایک اعزازی پوزیشن ہوتی ہے۔ یہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ان اساتذہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دی جاتی ہے جن کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔
یہ ایک اعزازی پوزیشن ہے جو زندگی بھر کے لیے اعزازی ہی ہوتی ہے۔ اس کے لیے یونیورسٹی کو کوئی مالی یا کسی قسم کے خصوصی اقدامات نہیں کرنے پڑتے۔ یہ یونیورسٹی پر کسی قسم کا کوئی بوجھ نہیں ڈالتی۔
رومیلا تھاپڑ کا جواب
رجسٹرار کو اپنے جواب میں رومیلا تھاپڑ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو یہی بتایا کہ انہیں امریطس پروفیسرشپ کے مطلب کا علم ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ یونیورسٹی کی کمیٹی کیسے اور کس بات کا اندازہ لگانا چاہتی ہے؟ کیا وہ ان کی ماضی میں شائع کردہ کتابوں کو جانچنا چاہتی ہے؟ کیا ان میں تاریخ کی کتاب ’دی پاسٹ بیفور اس‘ کا جائزہ لیا جائے گا جس مین بھارتی کی تاریخ کی تحقیق کی گئی ہے؟ کیا وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ رومیلا تھاپڑ کو 2008 میں تاریخ کا کلوگ پرائز ملا تھا جو کہ نوبیل انعام کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
حیران کن طور پر جے ای یو کا خط ملنے سے کچھ روز قبل ہی امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی کی جانب سے رومیلا کو مطلع کیا گیا ہے کہ انہیں اس سوسائٹی کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ اے پی ایس امریکا کی ایک بہت پرانی دانشورانہ سوسائٹی ہے جس میں شمولیت کا معیار دانشورانہ کامیابیاں اور بہت محدود افراد کو ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا ری ایکشن
ٹوئٹر پہ جہاں ایک طرف لوگ یونیورسٹی کی اس حرکت پہ افسردہ ہیں وہیں دوسری طرف اس کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔
مرزا وحید نامی صارف کا کہنا تھا کہ میں بچپن سے ہی رومیلا تھاپڑ کو پڑھتا ہوا بڑا ہوا ہوں۔ یونیورسٹی انہیں کس قسم کا خراج تحسین دینا چاہتی ہے؟
I grew up reading Romila Thapar. One of the finest historians anywhere in the world.
— Mirza Waheed (@MirzaWaheed) September 1, 2019
An enormous privilege for any university to have her.
سریش پانگرہی کے مطابق یہ کسی بھی استاد کے وقار اور تعلیمی اختیارات پر حملے کے مترادف ہے۔
jnu wants to see Romila Thapar's
— Suresh Panigrahy (@comrade_suresh) September 1, 2019
CV. It is authoritarian attack on
Academic freedom and assault on
Great scholar and octogenarian
Academician.
ایک اور صارف ویشو مینن نے اسے یونیورسٹی کی جہالت کا سرعام مظاہرہ قرار دیا۔
jnu wants to see Romila Thapar's
— Suresh Panigrahy (@comrade_suresh) September 1, 2019
CV. It is authoritarian attack on
Academic freedom and assault on
Great scholar and octogenarian
Academician.
آفتاب عالم کے مطابق مودی پہ تنقید کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔
Is JNU enforcing age ban on profs emeriti? Modi critic Romila Thapar asked for details of work https://t.co/VZJePTWZcF
— Aftab Alam (@aftabistan) September 1, 2019