ویڈیو لیکس اور معاشرہ

ان ویڈیوز کی تشہیر کا مقصد بدلہ، دوسرے کو ضرر، تکلیف اور بدنامی دینا ہوتا ہے۔ کچھ ویڈیوز لوگوں نے خود ریکارڈ کی ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں کی ویڈیوز ان کے پارٹنر نے چھپ کر بنا لی ہوتی ہے، تاہم ان کی تشہیر میں اکثر دوسرے ملوث ہوتے ہیں۔

28 مئی 2020 کی اس تصویر میں ایک موبائل فون کی سکرین پر فیس بک اور یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا ایپس کے آئیکون دیکھے جا سکتے ہیں (اے ایف پی)

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر خواتین کی نجی ویڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں اور اس کا نشانہ ٹک ٹاکر، یوٹیوبر اور شوبز میں کام کرنے والی خواتین زیادہ بنتی ہیں۔

خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اکثر عوام بھی سائبر کرائم کا نشانہ بنتے ہیں کیونکہ محبت، اعتبار اور بھروسہ انسان کو ایسی غلطیوں پر مجبور کر دیتا ہے۔

ایسی ویڈیوز پھیلانے والے جان کر اس کو وٹس ایپ یا فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے وائرل کرتے ہیں تاکہ ان کی شناخت سامنے نہ آ سکے۔

مقصد کیا ہے؟ مقصد کسی کو بھی بدنام کرنا ہوتا ہے۔ جب کسی کی برہنہ تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر آ جائیں تو وہ دلبرداشتہ ہو کر ہر اس چیز سے دستبردار ہوجاتا ہے، جہاں وہ محںت کرکے پہنچا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ ان حالات کے بعد خودکشی پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیا کا سامنا نہیں کر پاتے اور شرمندگی کے خوف کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

ان ویڈیوز کی تشہیر کا مقصد بدلہ، دوسرے کو ضرر، تکلیف اور بدنامی دینا ہوتا ہے۔ کچھ ویڈیوز لوگوں نے خود ریکارڈ کی ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں کی ویڈیوز ان کے پارٹنر نے چھپ کر بنا لی ہوتی ہے، تاہم ان کی تشہیر میں اکثر دوسرے ملوث ہوتے ہیں۔

جنسی خواہشات انسان کے اندر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جنس مخالف ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو جاننے کے لیے کالز، میسج اور وٹس ایپ کال کا سہارا لیتے ہیں۔

ان کو یہ لگتا ہے کہ بات چیت آگے چل کر دوستی میں بدل جائے گی اور یہ دوستی محبت اور شادی کے رشتے میں تبدیل ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ رشتے میں اگر ایک انسان بھی فطری طور پر بدنیت ہو تو رشتہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔

ہمارے ملک میں جب بھی کوئی ویڈیو سامنے آتی ہے تو اس شخص کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اسے شادی کرنے کے مشورے دیے جاتے ہیں، بدکردار کہا جاتا ہے، لیکن اس شخص کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا جس نے ویڈیو ریکارڈ کی، جس نے اس کو سوشل میڈیا پر پھیلایا، جس نے اس کو سب کے سامنے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

وہ سب معصوم بن جاتے ہیں اور گناہ گار صرف وہ شخص ہے جو ویڈیو لیکس میں نظر آرہا ہے۔ لوگ بہت فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ان پاس ویڈیو موجود ہے اور اس کا لنک لینے کے لیے ان سے میسنجر اور وٹس ایپ پر رابطہ کیا جائے۔

جس شخص کا یہ عمل ہوتا ہے وہ انفرادی طور پر ہوتا ہے جو کہ اس نے چھپ کر اس انسان کے لیے کیا ہوتا ہے جو اس سے محبت کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت میں اگر کسی کو محبت ہے تو وہ اس کو نکاح کے بندھن میں لے جائے گا۔ جس نے یہ نہیں کرنا ہوگا وہ برہنہ تصاویر یا ویڈیوز کا مطالبہ کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کو خود ریکارڈ کرنے والوں کی اتنی غلطی ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ لمحات ریکارڈ کیے، پر ان کو دنیا کے سامنے لانے والا سب سے بڑا مجرم ہے۔ ہم خواتین کو عام طور پر ایسی ویڈیوز نہیں سینڈ کی جاتیں، پر سوشل میڈیا پر مردوں کی یہ ٹویٹس دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی جس میں وہ ایک ٹک ٹاکر علیزے سحر کی مبینہ غیراخلاقی ویڈیو کو فخریہ طور پر دیکھنے اور ایک دوسرے سے لنک یا ویڈیو مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے تھے۔

کچھ اس بات کے خواہش مند تھے کہ وہ ٹک ٹاکر اب مر جائے، اس کو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کوئی اس کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے تھے۔ اس کی تصاویر لگا کر یوٹیوبرز اپنی ویڈیوز پر ویوز لے رہے تھے۔ ہر کوئی اپنے طور پر اس کو سزا سنا رہا تھا، اسے برا بھلا کہہ رہا تھا۔

کسی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ جس کے ساتھ اس کی دوستی تھی، جس پر اس نے اعتماد کیا، اس نے اس کو دھوکہ دیا اور نجی لمحات کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تاکہ اس لڑکی کی بدنامی ہو۔

میں اس ٹک ٹاکر کو جانتی تو نہیں، نہ ہی اس کا کام اتنا دیکھا ہے لیکن ایکس اور فیس بک پر تصاویر سے وہ ایک الہڑ سی مٹیار لگتی ہیں، جو گاؤں کا کلچر، کھیت کھلیان، موسیقی دنیا کے سامنے لاتی تھیں تاہم سوشل میڈیا تو ان کے خلاف سزا سنانے میں لگا ہوا ہے۔

ان کی وہ سب محنت جو انہوں نے ٹک ٹاک پر کی تھی وہ رائیگاں چلی گئی۔ لوگ اس کلپ کو لے کر انہیں بدنام کر رہے ہیں، جیسے قندیل بلوچ کے ساتھ ہوا تھا، جیسے عامر لیاقت کے ساتھ ہوا تھا۔ لوگوں نے ان کی کردارکشی کی اور ان کے مرنے کے بعد ان سے ہمدردی جاگ گئی۔

پہلے ہمارے عوام کسی کو نفرت سے مارتے ہیں، پھر اس کے مرنے کے بعد نادم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے عوام ویڈیو کلپس لنکس اور عریانیت کا نشہ کرنے لگ گئے ہیں۔ ایسی کوئی چیز اگر پاس آ بھی جائے تو اسے تلف کیا جا سکتا ہے پر یہاں تو ایسی چیزیں مل بانٹ کر شیئر کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، اس پر بھی ویوز، فالورز اور ریونیو لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

نوجوان ایسا مواد سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں، شیئر کرتے ہیں اور اس کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ یہ کیسی مذمت ہے جو اس چیز کو پھیلا کر کی جاتی ہے؟ ہر کسی کے ہاتھ میں فون ہے، اس میں کیمرہ ہے، ہر کسی کے پاس ٹیکنالوجی ہے، انٹرنیٹ ہے، تو اس کا استعمال اس کے صارف پر منحصر ہے۔

لوگ خود تمام گناہ کرکے انگلیاں صرف علیزے جیسی لڑکیوں کی طرف اٹھا کر ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ویڈیو کال پر یا ویڈیو بنانے والے کی غلطی اس کا اعتبار اور محبت ہوتی ہے، جس کو غلط استعمال کر کے سامنے والا کسی بھی انسان کے جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے اور بعد میں اس کو بدنام بھی کرتا ہے۔

اس کیس میں بھی مجرم وہ ہے جس نے ویڈیو ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی۔ اس شخص کو گرفتارکرکے سزا دی جائے تاکہ یہ سلسلہ رکے۔

لڑکیوں کو کسی طور پر ایسی محبت پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے جو ان کو بنا شادی ازدواجی تعلقات پر مجبور کرے یا ان سے برہنہ تصاویر اور ویڈیوز مانگے۔ ’میں دیکھ کر ڈیلیٹ کردوں گا۔‘ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ یہ ڈیٹا سیو کر لیا جاتا ہے، جس کو بعد میں بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مجرم کے بجائے مظلوم پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ طاقتور کو سزا نہیں ہوتی اس لیے یہ ویڈیوز آتی ہیں اور سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کریں اور ایسا مواد سوشل میڈیا پر رپورٹ کریں تاکہ یہ مزید نہ پھیل سکے۔

یہ کیس ارباب اختیار کے لیے چیلنج ہے، وہ کس طرح سے متاثرہ ٹک ٹاکر کو انصاف دیں گے اور مجرمان کو سزا دیں گے۔

علیزے پر انگلیاں اٹھانے والے پہلے خود دیکھیں کہ وہ کتنے پارسا ہیں۔ مجھے رنج ہے کہ ایک وی لاگر اور ٹک ٹاکر کو اس کرب سے گزرنا پڑا۔ شوبز کے لوگ بھی انسان ہی ہوتے ہیں، ان کے بھی جذبات احساسات ہوتے ہیں، ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی کریں، تشہیر نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ