سعودی عرب نے اتوار کو ایک اسرائیلی وزیر کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے غزہ پر اسرائیل کے جوہری حملے کے ’آپشن‘ پر بات کی تھی۔
سعودی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر کا بیان اسرائیلی حکومت کے ارکان میں ’انتہا پسندی اور بربریت‘ کا پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا: ’وزیر کو برطرف نہ کرنا اور صرف ان کی رکنیت منجمد کرنا تمام انسانی معیاروں اور اقدار کے منافی ہے۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ ’اتوار کو وزیر ثقافتی ورثہ ایمیچی ایلیاہو کو ایک انٹرویو میں غزہ پر جوہری بم گرانے کا مشورہ دینے کے بعد حکومتی اجلاسوں میں شرکت سے ’تاحکم ثانی‘ معطل کر دیا گیا تھا۔‘
نیتن یاہو کے حکمراں اتحاد میں شامل اور ایک انتہائی قوم پرست سیاست دان ایلیاہو نے اسرائیل کے کول برما ریڈیو کو بتایا تھا کہ وہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں۔
جب انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ کیا اسرائیلی وزیر نے غزہ پٹی پر ’سب کو مارنے کے لیے کسی قسم کا ایٹم بم‘ گرانے کی وکالت کی ہے، تو ایلیاہو نے جواب دیا: ’یہ ایک آپشن ہے۔‘
نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ ’ایلیاہو کے بیانات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ اسرائیل اور آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) معصوم عوام کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے اعلیٰ ترین معیارات کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنی جیت تک ایسا کرتے رہیں گے۔‘
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ایلیاہو کو ’تاحکم ثانی‘ حکومتی اجلاسوں میں شرکت سے بھی روک دیا گیا ہے۔‘
Saudi Arabia condemns in the strongest terms possible the extremist remarks by an Israeli occupation government minister regarding dropping a nuclear bomb on the besieged Gaza Strip which show the pervasiveness of extremism and brutality among members of the Israeli government. pic.twitter.com/b8goRY64VD
— Foreign Ministry (@KSAmofaEN) November 5, 2023
مقامی حکام کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے اب تک نو ہزار 700 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جس سے اسرائیل کے ہتھکنڈوں پر بین الاقوامی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے حملوں میں 1400 افراد مارے گئے تھے۔
اس بحران کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو گذشتہ ہفتے کے آخر میں مشرق وسطیٰ کا ایک اور دورہ کرنا پڑا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ’ظاہر ہے کہ یہ ایک قابل اعتراض بیان تھا اور (اسرائیلی) وزیراعظم نے واضح کر دیا تھا کہ وہ (ایلیاہو) حکومت کی ترجمانی نہیں کر رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قطر کی وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی وزیر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’جنگی جرم پر اکسانے اور انسانی اور اخلاقی اقدار اور بین الاقوامی قوانین کی بے توقیری‘ قرار دیا ہے۔
اردن کی وزارت خارجہ اور امور تارکین وطن نے بھی ایلیاہو کے ’نسل پرستانہ، اشتعال انگیز‘ بیانات کی مذمت کی ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں اسے ’نسل کشی اور نفرت پر مبنی جرم کا ناقابل برداشت مطالبہ‘ قرار دیا گیا ہے۔
وزارت نے ’غزہ پٹی کے لوگوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کے علاوہ قتل اور جنگی جرائم پر اکسانے کے لیے قابل مذمت اشتعال انگیزی‘ قرار دیتے ہوئے اس مذمت کی ہے۔
اسرائیلی وزیر کے اس بیان پر حماس کے ترجمان نے کہا کہ ایلیاہو ’غیر معمولی مجرمانہ اسرائیلی دہشت گردی‘ کی نمائندگی کرتے ہیں ’جو پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرہ ہے۔‘
اسرائیلی حزب اختلاف سے نیتن یاہو کی جنگ کابینہ میں شامل ہونے والے ایک سابق جنرل بینی گینٹز نے کہا کہ ایلیاہو کا بیان نقصان دہ تھا اور ’اس سے بھی بدتر یہ کہ یرغمالیوں کے اہل خانہ کے درد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘
ایلیاہو نے بعد میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’یہ بات ہر کسی پر واضح ہے کہ جوہری حملے کے متعلق بیان علامتی تھا۔‘