پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک کے بڑے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پالیسی میں ’تسلسل‘ کے لیے کی گئی ہے۔
یہ توسیع ایسے وقت کی گئی ہے جب ملک کو عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی عہدے دار نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی مدت ملازمت میں توسیع پر عوامی سطح پر بات کی۔
عرب نیوز کے مطابق فوج نے ابھی تک ندیم انجم کی مدت ملازمت میں توسیع کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی پاکستان میں اہم ترین عہدوں میں سے ایک ہے۔
توسیع پانے والے آخری ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی مدت ملازمت میں توسیع ایسے وقت کی گئی ہے جب داعش جیسے گروپوں کے ساتھ ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے عسکریت پسندی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے ٹی ٹی پی کے حوصلے بلند ہوئے، تاہم کابل اس موقف کی تردید کرتا ہے۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’(پالیسی کے) تسلسل کے نکتے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کوئی بھی نظام تسلسل کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے۔‘
انوار الحق کاکڑ کے بقول: ’لہٰذا اس تناظر میں آپ یا سیاسی قیادت کئی اداروں میں بعض اوقات محسوس کرتی ہے کہ بعض افراد کو کسی بھی سکیورٹی مفاد میں کام جاری رکھنا ہے یا بصورت دیگر انہیں (ریاست کو) ایسا کرنے (توسیع دینے) کا صوابدید حاصل ہے۔ اس میں کچھ بھی خلاف معمول اور ابنارمل نہیں بات نہیں ہے۔‘
کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ عسکریت پسندی میں اضافے کو انتخابات میں ممکنہ تاخیر سے نہیں جوڑنا چاہتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگران وزیر اعظم نے کہا: ’وہ (عسکریت پسند) اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، ہمیں اسی کے مطابق جواب دینا ہوگا۔ اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں اسے (حملوں میں اضافے کو انتخابات کے ساتھ) نہیں جوڑ رہا یا ہماری حکومت اسے انتخابی عمل سے نہیں جوڑ رہی۔‘
لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے الزامات مسترد کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’چوں کہ ہم الیکشن کے دن کی طرف بڑھ رہے ہیں اس لیے اس طرح کی بیان بازی میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کی بہت واضح اور قابل فہم وجوہات ہیں اور وہ یہ کہ ہر سیاسی جماعت میری رائے میں ووٹروں اور حامیوں میں یہ تاثر پیدا کرنا چاہتی ہے کہ وہ انتظامیہ کے ہاتھوں متاثرہ ہیں اور وہ ہمدردیاں حاصل کرنا اور ووٹ کی شکل میں سپورٹ چاہتی ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی اگست میں بدعنوانی کے مقدمے میں سنائی جانے والی سزا کی وجہ سے الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا گیا ہے جس کے خلاف انہوں نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے الزامات اور عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف ایک سو سے زیادہ مقدمات کے سیاسی محرکات پر مبنی ہونے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تمام جماعتوں کو عدالتوں کے ذریعے انصاف کا حق حاصل ہے۔