اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل سے روک دیا

عدالت نے منگل کو جیل ٹرائل سے متعلق تمام ریکارڈ دو دن میں طلب کرتے ہوئے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی 23 اکتوبر 2023 کو ہونے سماعت کے موقع پر ایک پولیس اہلکار اڈیالہ جیل کا مین گیٹ بند کر رہا ہے (اے ایف پی/ عامر قریشی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل سے روک دیا ہے۔

عدالت نے منگل کو جیل ٹرائل سے متعلق تمام ریکارڈ دو دن میں طلب کرتے ہوئے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے منگل کو چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ ’بتائیں کب کن حالات میں کس بنیاد پر یہ فیصلہ ہوا کہ جیل ٹرائل ہو گا؟‘

 انہوں نے کہا کہ ’خاندان کے چند افراد کو سماعت میں جانے کی اجازت کا مطلب اوپن کورٹ نہیں، جس طرح سے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی گئی اسے بھی اوپن کورٹ کی کارروائی نہیں کہہ سکتے۔‘

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’وفاقی کابینہ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کی منظوری دی ہے۔‘ جس پر عدالت نے کہا کہ ’وہ نوٹیفکیشن ہم دیکھیں گے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ جیل ٹرائل ہو گا تو یہ غیرمعمولی ٹرائل ہو گا۔‘

جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’یہ غیرمعمولی ٹرائل نہیں صرف جیل ٹرائل ہے۔‘

جسٹس میاں گل حسن نے کہا ’ہم جاننا چاہتے ہیں ایسے کیا غیرمعمولی حالات تھے کہ یہ ٹرائل اس طرح چلایا جارہا ہے؟ بادی النظر میں جیل ٹرائل کے تینوں نوٹیفکیشنز ہائی کورٹ کے متعلقہ رولز کے مطابق نہیں ہیں۔‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’میں تمام متعلقہ اداروں سے ریکارڈ لے کر عدالت کے سامنے رکھ دوں گا۔‘

اس موقع پر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’پانچ گواہ اس وقت بھی جیل میں بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے موجود ہیں۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی کابینہ نے دو دن پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی، اس کی کیا وجوہات تھیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منظوری سے پہلے ہونے والی عدالتی کارروائی کا سٹیٹس کیا ہو گا؟

’ریکارڈ کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی ایگزیکٹو نے کی، چیف جسٹس سے رائے لی گئی لیکن یہ پراسیس ایگزیکٹو نے شروع کیا اور انہوں نے ہی مکمل کیا۔‘

انہوں نے اٹارنی جنرل سے مزید کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب شاید میں زیادہ بول رہا ہوں، ایک جج کو زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے، ویک اینڈ پر مجھے اس کیس کے بارے قانون پڑھنے کا موقع ملا۔ اب جو ٹرائل جیل میں ہو رہا ہے وہ ہش ہش نہیں ہونا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اندرا گاندھی کے کیس میں بھی ٹرائل تہاڑ جیل میں ہوا تھا، جب فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہاں میڈیا کو بھی اجازت تھی، وہاں بھی ایک سابق وزیر اعظم کا کیس تھا یہاں بھی سابق وزیر اعظم کا کیس ہے۔‘

امریکی سائفر کیس: اڈیالہ جیل میں بڑی عدالت بنا دی گئی

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت امریکی سائفر کیس میں سماعت اڈیالہ جیل کے ایڈمن بلاک کے چھوٹے کمرے سے کمیونٹی ہال میں منتقل کر دی گئی ہے۔

سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نئی بنائی گئی عدالت میں کم و بیش ایک ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے۔ گذشتہ سماعت پر جب اہلخانہ کو سماعت میں آنے کی اجازت ملی تھی تب استغاثہ نے متبادل کمرہ عدالت تیار کروایا ہے۔‘

شاہ خاور نے بتایا کہ ’آج سات گھنٹے سماعت جاری رہی اور زیادہ وقت دفتر خارجہ کی خاتون افسر کی جرح پر لگا۔‘

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جیل سے عمران خان کی تصویر میں صداقت نہیں، عمران خان کے حلیے میں کوئی فرق نہیں آیا وہ پہلے جیسے تندرست اور فریش ہیں اور آج بھی وہ ٹریک سوٹ اور سویٹر میں تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ’دونوں ملزمان کے رویے میں آج بدلاؤ نظر آیا۔ پہلے چونکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ایک ہی کمرے میں جالی کے اس پار بیٹھے ہوتے تھے، وکلا سے گفتگو بھی ویسے ہی ہوتی تھی لیکن آج ایک ہی ہال میں موجود ہونے کے باعث دونوں کو اپنے اہلخانہ سے دل بھر کر باتیں کرنے کا موقع ملا جس کے باعث عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی خوشی واضح تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’عمران خان کی ہمشیراہ اور ان کے بچے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ ان کی اہلیہ قدرے تاخیر سے عدالت آئیں، جبکہ شاہ محمود قریشی کے بھی اہلخانہ سے بیوی، بیٹی سمیت پانچ افراد عدالت میں ان سے محو گفتگو رہے۔‘

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالتی فیصلے پر میڈیا کو ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری استدعا تھی کہ جیل کے بند کمرے میں جو ٹرائل ہے وہ کوئی ٹرائل نہیں۔ آئین کا بنیادی تقاضا ہے کہ ٹرائل اوپن کورٹ میں ہو۔ ہر شخص کو بالخصوص میڈیا کو اجازت ہو کہ وہ دیکھ سکیں کیا چل رہا ہے۔

’اگر فیصلہ ہوتا ہے کہ اب تک کی کارروائی غیر آئینی ہے تو اب تک جو کارروائی ہوئی اس کو حذف کرنا ہو گا اور ٹرائل ازسر نو شروع کرنا ہو گا۔‘

سائفر کیس کی سماعت منگل کو اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات نے کی جہاں دفتر خارجہ کی افسر اقرا اشرف کا بیان قلمبند اور جرح مکمل ہوئی جبکہ حسیب بن عزیز کا صرف بیان قلمبند کیا گیا ہے۔

سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو نے بعد از سماعت اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’آج کمرہ عدالت میں ہم موجود تھے، عمران خان کی فیملی بھی موجود تھی اس سے عدالت کا ماحول بہتر ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امید ہے کہ میڈیا کو بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کا موقع دیا جائے گا۔‘

گذشتہ سماعت میں عدالتی حکم پر دونوں ملزمان کے پانچ اہلخانہ کو عدالتی کارروائی کے دوران کمرہ عدالت میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اپنے والد کی صحت کے بارے مہربانو کا کہنا تھا کہ ’شاہ محمود قریشی کی صحت اچھی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان