انڈیا میں چھ سال سے قید اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے سکاٹ لینڈ کے ایک سکھ شہری کے بھائی نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون سے ان کی رہائی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
36 سالہ جگ تار سنگھ جوہل کو 2017 میں انڈیا کی شمالی ریاست پنجاب سے سکھ علیحدگی پسند گروپ ’خالصتان لبریشن فورس‘ سے مبینہ وابستگی کے الزام میں ’بغیر کسی قصور کے حراست‘ میں لیا گیا تھا۔
سکاٹش شہر ڈمبرٹن سے تعلق رکھنے والے جگ تار سنگھ کے خاندان نے دعویٰ کیا کہ وہ سکھوں کے لیے انسانی حقوق کی مہم چلا رہے تھے جن کو نامعلوم کار میں بٹھایا کر لے جایا گیا اور اس کے بعد سے انہیں جیل میں قید کے دوران بجلی کے جھٹکوں سمیت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انڈیا کی حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا بدسلوکی کی گئی تھی۔
برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسز ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس پر الزام ہے کہ انہوں نے انڈین حکام کو ان کے بارے میں اطلاع دی جس کی وجہ سے جگ تار سنگھ کی گرفتاری عمل میں آئی۔
رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے رواں سال ستمبر میں نئی دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر جگ تار سنگھ کا معاملہ اپنے انڈین ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ اس اٹھایا تھا۔ اس کے بعد سے سکھ کارکن کے بارے میں انڈیا کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
جگ تار سنگھ کے بھائی گُر پریت سنگھ جوہل نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ نئے وزیر خارجہ سے سابق برطانوی حکومتوں کے برعکس وہ اس معاملے پر پیش رفت کے لیے کام کریں۔
گُر پریت سنگھ نے بی بی سی ریڈیو سکاٹ لینڈ کو بتایا: ’ہمیں امید ہے کہ اس وزیر خارجہ کو سب سے پہلے ہم سے مل کر اس بات کی تصدیق کرنا ہو گی کہ وہ جگ تار کو وطن واپس لانے کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں۔ ہمارا صبر جواب دے چکا ہے کیونکہ اس حکومت نے اس معاملے میں جگ تار سنگھ اور ان کے خاندان کو پچھلے چھ سالوں کے دوران مایوس کیا ہے۔‘
UK Ministers are selling out British Sikh activists to appease the extreme right-wing leadership of India committed to a Hindu Rashtra
— Sikh Federation (UK) (@SikhFedUK) November 15, 2023
“Rishi Sunak despite being specifically briefed by Justin Trudeau showed he is weak and a light-weight leader by failing to raise the… pic.twitter.com/8jfhsz38rh
انہوں نے مزید کہا کہ خاندان کو امید ہے کہ ڈیوڈ کیمرون اپنے تجربے اور دیرینہ سفارتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے برطانوی شہری کی رہائی کا مطالبہ کر سکیں گے۔
ان کے بقول: ’کیونکہ برطانیہ کی حکومت کی ایک پالیسی ہے اور پالیسی یہ ہے کہ اگر آپ کو بغیر کسی قصور کے حراست میں لیا جاتا ہے، جیسا کہ نظر بندی کے معاملے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے پایا ہے، آپ کو رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ چھ سال کے بعد چھٹا وزیرِ خارجہ کچھ ایسا کر سکتا ہے جو دیگر وزرا اس دوران کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
مئی 2022 میں اس جبری حراست پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے تصدیق کی تھی کہ جگ تار سنگھ جوہل کی گرفتاری انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
گُرپریت سنگھ نے کہا کہ انہوں نے اپنے بھائی سے آخری بار بات اکتوبر میں اپنے بھائی کی شادی کی سالگرہ پر کی تھی۔
ان کے بقول: ’انہیں امید ہے کہ وہ کم از کم اگلے چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے میں کم از کم ضمانت پر رہا ہو سکتے ہیں لیکن میں اتنا ہی جانتا ہوں کیونکہ میں نہیں جانتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’انہیں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے کہ وہ اگلے چھ ماہ میں کم از کم وہ ضمانت پر باہر آ جائیں گے۔‘
انہوں نے ایک الگ خط میں ڈیوڈ کیمرون پر زور دیا کہ وہ ان کے بھائی کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔
جگ تار سنگھ کو 2,208 دنوں کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرے بھائی کی زندگی اس بات پر منحصر ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کیا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا وہ جگ تار کو گھر واپس لانے کے لیے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
ڈیوڈ کیمرون کو لکھے گئے اپنے خط میں گُرپریت سنگھ جوہل نے مزید کہا: ’جگ تار سنگھ ایک برطانوی شہری ہیں۔ وہ سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ سیاسی طور پر عائد کیے گئے الزامات کے تحت انہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک حراست میں لیا گیا اور انہیں ممکنہ موت کی سزا کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’برطانیہ کی حکومت کے لیے اس کیس کو حل کرنا اور انہیں گھر لانا ایک ترجیح ہونی چاہیے۔‘
جگ تار جوہل کو ابتدائی طور پر اسلحہ برآمد ہونے کے ایک کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں ٹارگٹ حملوں کے سات دیگر مقدمات میں نامزد کیا گیا جن میں سے پانچ علیحدگی پسند تحریک کی جانب سے کیے گئے پانچ مبینہ قتل کے الزامات شامل تھے۔
ان کے وکیل نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: جگ تار سنگھ جوہل کے خلاف انڈیا میں کل 11 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے آٹھ کی تفتیش نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کر رہی ہے، دو کی پنجاب پولیس اور ایک کی دہلی پولیس کا سپیشل سیل کر رہا ہے۔‘
حکومت کے ایک ترجمان نے پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’برطانیہ کی حکومت جگ تار سنگھ جوہل کے کیس کو جلد از جلد حل ہوتے دیکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
ترجمان کے بقول: ’ہم جگ تار سنگھ جوہل اور ان کے خاندان کو قونصلر مدد فراہم کرتے رہتے ہیں اور ہم نے مسلسل ان کا معاملہ انڈین حکومت کے ساتھ براہ راست اٹھایا ہے۔‘
© The Independent