لاہور کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 11 نومبر کو ڈیفنس میں ہونے والے کار حادثے میں نامزد ملزم افنان شفقت کو مزید پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے تفتیشی رپورٹ طلب کر لی۔
متاثرہ خاندان کے وکیل رانا مدثر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افنان کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت جج عبہر گل نے کی، جس میں پولیس نے استدعا کی کہ کہ انہیں مزید ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے افنان کا جسمانی ریمانڈ چاہیے۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے بتایا کہ ملزم افنان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے کچھ ٹیسٹ ہو چکے ہیں اور کچھ باقی ہونا ہیں اور اسی لیے پولیس نے جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ کیا۔
’پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ضروری ہے کیونکہ ملزم بیانات بدل بدل کر دے رہا ہے اور فوٹو گرامک ٹیسٹ اگر کوئی ویڈٰو یا تصاویر سامنے آئیں ہیں تو ان کی اصل ہونے کا ٹیسٹ کروانا ہے۔
رانا مدثر نے مزید بتایا کہ مدعی کی جانب سے انہوں نے درخواست کی کہ چونکہ یہ غیر معمولی نوعیت کامقدمہ ہے تحقیقات پہلے ہی آہستہ چل رہی ہیں اس لیے اس میں تیزی لانے کے لیے عدالت ہدایات جاری کرے۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے انکشاف کیا کہ کار حادثے میں چھ نہیں بلکہ سات انسانوں کی جان گئی تھی کیونکہ کار میں سوار متاثرہ خاندان کی بہو حاملہ تھیں۔
ملزم افنان کو بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں؟
اس حوالے سے رانا مدثر کا کہنا تھا کہ ملزم افنان شفقت کو بچانے کے لیے پہلے تین روز میں ہی کیس خراب کر دیا گیا کیونکہ ملزم کا خاندان اثر و رسوخ کا حامل ہے۔
’انہوں نے پولیس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایف آئی آر بنیادی طور پر خراب کر دی گئی ہے۔
’سب اہم یہ کہ پولیس نے تین روز تک ملزم افنان شفقت کی گرفتاری نہیں ڈالی بلکہ اسے ایکسیڈنٹ کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی۔‘
رانا مدثر کا کہنا تھا: ’کیس ایسے خراب ہوا کہ جب ایف آئی آر کٹی تو اسی وقت جتنے ملزم تھے انہیں حراست میں لیا جانا چاہیے تھا۔ جائے وقوعہ سے جتنے بھی متعلقہ ثبوت تھے وہ اکٹھے کرنا چاہیے تھے۔ ملزم کو فوری گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر کے اس کا ریمانڈ لیا جانا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر ہر جگہ ابتدائی طور پر بچے کا ویڈیو بیان چل گیا جس میں بتایا گیا کہ اس کی عمر 14 سال ہے۔
’تفتیشی افسر کو سب سے پہلے بچے کی عمر کا تعین کروانا تھا اور وہ حقائق جس میں ان کا جھگڑا ہوا اور بچیوں کو حراساں کیا گیا۔ افنان کا منشیات کا ٹیسٹ ہونا چاہیے تھا اس پر تو تفتیشی افسر نے تحقیق ہی نہیں کی۔ تین روز میں تو منشیات کے استعمال جاننے کے لیے ضروری نمونے ضائع ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے ریمانڈ کے لیے ایک سطر کی درخواست عدالت میں دی کہ مجھے تفتیش کرنا ہے اس لیے مجھے ریمانڈ دے دیا جائے حالانکہ عدالت نے ریمانڈ تب دینا ہوتا ہے جب اس میں تمام تفصیلات لکھی جائیں۔
’یہ سب حقائق لکھ کر جب عدالت سے ریمانڈ مانگا جائے تو عدالت ریمانڈ دیتی ہے لیکن متعلقہ تفتیشی افسر نے ریمانڈ کے لیے دی جانے والی درخواست میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔‘
پولیس اہلکاروں کے خلاف ایکشن
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی)، انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’اس معاملے میں انچارج انویسٹی گیشن اور تفتیشی افسر غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ تفتیشی افسر نے ایک روز کی تاخیر سے عدالت میں ریمانڈ کی درخواست دی، جس میں کچھ ایسا نہیں تھا، جس پر عدالت ملزم افنان کا ریمانڈ دیتی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم افنان کے ساتھ گاڑی میں سوار ان کے ایک ساتھی ابراہیم کو بھی پولیس نے تحویل میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔
عمران کشور کا کہنا تھا کہ اس حادثے کی اب تک کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی، جبکہ افنان کے عمر کے تعین کے ٹیسٹ کی رپورٹ کے نتائج کا انتظار ہے۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے بتایا کہ افنان کے خاندان نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست کے ذریعے مؤقف اختیار کیا ہے ہے ٹرائل شفاف نہیں ہے بلکہ میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔
عدالت عالیہ نے درخواست یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ ملزم پر دہشت گردی کی دفعہ لگی ہے اور ایسے مقدمے کو دو رکنی بینچ ہی سن سکتا ہے۔
ایڈوکیٹ رانا مدثر نے یہ بھی بتایا کہ ’افنان کا خاندان متاثرہ خاندان کے رشتے داروں کو لالچ دے کر ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ دیت لے کر کیس ختم کر دیں۔ جو بہو فوت ہوئی ہے ان کے بھائیوں کو بھی پیسوں کا لالچ دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افنان کے خاندان والے رفاقت علی کو ان کے چھوٹے بیٹے کے حوالے سے بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
’میں اس حوالے سے بھی عدالت میں متاثرہ خاندان کو ہراساں کیے جانے کی درخواست دائر کرنے والا ہوں۔‘
افنان شفقت کے وکیل کا مؤقف
دوسری جانب ملزم افنان شفقت کے وکیل عرفان حیات باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’افنان کو اس مقدمے میں بچانے کے لیے حادثے کے اصل حقائق صفحہ مسل پر لائے اور لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا کہ ملزم کی عمر اور جووینائل کی گراؤنڈ پر دفعہ 302 غلط لگی ہے۔
’دوسری پارٹی نے جو ضمنی بیان دیا کہ یہ ٹارگیٹڈ قتل ہے، وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ افنان کے جوڈیشل ریمانڈ کا مطالبہ کیا جائے گا جبکہ ان کے والد کی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی گئی ہے۔ ان کی عدالت میں پیشی 27 نومبر کو ہو گی۔
اس کیس کے حوالے سے کچھ وکلا کا خیال ہے کہ ضمنی دفعات 302 اور 780 اے سے کیس کمزور ہو چکا ہے۔
ایڈوکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میرے خیال میں ملز افنان کو اس کیس میں 302 اور 780 اے کے تحت سزائیں نہیں ہو پائیں گی کیونکہ اصل ایف آئی آر میں دفعہ 322 لگائی گئی ہے جو غیر ارادی قتل کے لیے ہوتی ہے جس کی سزا صرف دیت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ضنی دفعات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ 302 اور 780اے معاشرتی دباؤ کے تحت نظر ثانی کر کے لگائی گئیں ہیں، جن کے تحت پولیس کے لیے جرم ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اس حوالے سے متاثرہ خاندان کے وکیل رانا مدثر کا خیال ہے ’اس حادثے کی متعلقہ دفاعت میں سب سے پہلی 302 ہے کیونکہ یہ قتل کیا گیا اس کے بعد غفلت اور ریش ڈرایئونگ اس کے بعد 506 لگنی ہے کہ پہلے ان کی لڑائی ہوئی اور دھمکیاں دیں۔ پھر والد نے موقع سے افنان کو فرار کروایا۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سے کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرایئورز کے خلاف لاہور سٹی ٹریفک پولیس کا بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔
سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز کے مطابق اب تک ساڑھے تین ہزار سے زیادہ کم عمر اور 2141 بغیر لائسنس ڈرایئونگ کرنے والوں پر مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔